غزل
ہماری صدا سب ہوا لے گئی
سماعت سے تم کو بچا لے گئی
پہاڑوں کے سینے پہ کم بوجھ ہے
ندی کتنے پتھر اٹھا لے گئی
نظر میں فریبِ نظر بھی نہیں
محبت اِن آنکھوں سے کیا لے گئی
کسی در پہ بیٹھی ہوئی آرزو
ہتھیلی سے رنگِ حنا لے گئی
مرے دل کی ایماں فریبی ہوس
مرے لب سے ساری دعا لے گئی
ابھی کھیل ہی کھیل میں اک نظر
مرے دل کو اپنا بنا لے گئی
وہ صورت جو دل میں تھی بیٹھی ہوئی
مرے دل کی آہٹ چرا لے گئی
سخن ور تو راشد بھی کچھ کم نہیں
غزل جس کی طرزِ ادا لے گئی
______________
No comments:
Post a Comment