غزل
چلتے رہو سفر پہ مقدر سی دھوپ میں
ہجرت نے اوڑھ رکھی ہے چادر سی دھوپ میں
تھا آئینوں میں درد کے سورج کا ایک نقش
آنکھیں ہماری ہو گئیں پتھر سی دھوپ میں
وہ بھی مرے گماں کی حدوں سے گزر گیا
تتلی کا جیسے سایہ سمندر سی دھوپ میں
ہے آج ایک شیشے کی دیوار درمیاں
بینائی اپنی ہو گئی بے گھر سی دھوپ میں
محسوس یہ ہوا ہمیں اندر کی آگ سے!
جلتے رہے ہیں ہم بھی سمندر سی دھوپ میں
حسنِ خیالِ یار کا اعجاز دیکھئے......!
پرچھائیاں بھی بن گئیں پیکر سی دھوپ میں
جذبات کے پگھلنے کا راشد سماں بندھے
لاؤ کوئی غزل ذرا بہتر سی دھوپ میں
____________
No comments:
Post a Comment