غزل
ہے صاف و سادہ وہ آب جیسی
مگر ابھی تک ہے خواب جیسی
نہ فاصلہ ہے نہ قربتیں ہیں
ہے بے رخی بھی حجاب جیسی
نہ اس قدر دل میں ولولے ہیں
نہ آگہی ہے جناب جیسی
یہ سر پرستی بھی آپ کی اب
ہمیں لگے ہے حساب جیسی
حیات دریا سے کہہ گئی ہے
ہر ایک شے ہے حجاب جیسی
یہ تشنگی کا کھلا سا منظر!
ہر ایک شے ہے سراب جیسی
خوشی نہ دے توخوشی کی خاطر
کوئی پلا دے شراب جیسی
ہے سادہ رنگوں میں سرخ کتنی
ہے سادگی بھی عتاب جیسی
____________
No comments:
Post a Comment