Thursday, December 29, 2011

غزل : تنہائی کی ہو دھوپ تو سایہ نہیں ہوتا

غزل

تنہائی کی ہو دھوپ تو سایہ نہیں ہوتا
ہر تشنہ نظر آنکھ میں دریا نہیں ہوتا

ہوتی ہے کڑی دھوپ تو کیا کیا نہیں ہوتا
دیوار پر خود اپنا بھی سایا نہیں ہوتا

جب دور سے دیکھو تو ہر اک شخص ہے پورا
آتا ہے ذرا پاس تو آدھا نہیں ہوتا

بٹ جاتا ہوں خود اپنے ہی اندر بھی بہت میں
مجھ جیسا کوئی شخص ادھورا نہیں ہوتا

ظالم کی خدائی ہو تو دنیاۓ ہوس میں
ہوتا ہے بہت کچھ مگر اچھا نہیں ہوتا

حیرت میں پڑا آئینہ اب سوچ رہا ہے
کیوں سارے بدن پر کوئی چہرا نہیں ہوتا

تصویر کے رنگوں میں بکھر جاتا ہے کوئی
منظر بھی مرے خواب کا پورا نہیں ہوتا

خود اپنے ہی اندر کو سفر کرتا ہے راشد
جب سامنے اس کے کوئی رستہ نہیں ہوتا
_____________

No comments:

Post a Comment