غزل
اپنے آپ میں
پاگل رہنا، جیسے ہم اور تم
دیواروں کا
اندھا رشتہ جیسے ہم اور تم
اپنے آپ
کناروں کا احساس مٹاۓ کون
بیچ میں ہے
اک بہتا دریا جیسے ہم اور تم
دوری، قربت
دونوں کا دکھ لیکر جیتے ہیں
پیڑ تلے ہے
پیڑ کا سایہ جیسے ہم اور تم
ہنس کر، رو
کر ساتھ سفر میں چلتے رہنا ہے
آپس میں یوں
ڈرتے رہنا جیسے ہم اور تم
اتنے دنوں کا
ساتھ ہمارا، پھر کیوں لگتا ہے
سپنوں میں ان
دیکھا سپنا جیسے ہم اور تم
درد کا رشتہ
ایک ہے لیکن، کون سمجھتا ہے
دونوں میں ہے
ایک اکیلا جیسے ہم اور تم
گھر بھی
اپنا، تم بھی اپنے پھر بھی لگتا ہے!
زیست ہے اپنی جنس کا سودا جیسے ہم اور تم
_____________
No comments:
Post a Comment