Monday, December 26, 2011

غزل : میں وہ درد ہوں کہ جس کی کوئی اک صدا نہیں ہے

غزل

میں وہ درد ہوں کہ جس کی کوئی اک صدا نہیں ہے
مجھے ٹوٹتا جو دیکھے کوئی آئینہ نہیں ہے

یہی پتھروں کی راہیں مرے پاؤں کو ملی ہیں
ابھی سخت راستوں کا مجھے کچھ پتا نہیں ہے

مری سوچ کی دھنک پر کئی رنگ میں ہے رقصاں
مرے خوابِ زندگی سے تو کہیں جدا نہیں ہے

جو بہت سفر کیا تو یہ پتا چلا ہے مجھ کو
تری رہگزر سے ہٹ کر کوئی راستہ نہیں ہے

کوئی ایک حدِّ فاصل میرے تیرے درمیاں ہے
مرے درد کی صدا پر تو کبھی ملا نہیں ہے

وہاں کیا پہنچنا مشکل جو فلک بھی درمیاں ہو
یہ دعا کا راستہ ہے یہاں فاصلہ نہیں ہے

ترے آئینوں میں اب تک مری جاں لیز رہی ہے
انھیں آئینوں کو دیکھوں مرا حوصلہ نہیں ہے
_____________

No comments:

Post a Comment