Monday, November 28, 2011

غزل : درد پھیلے تو سمندر دیکھو | حوصلہ ہو تو یہ منظر دیکھو

غزل

درد پھیلے تو سمندر دیکھو
حوصلہ ہو تو یہ منظر دیکھو

آہٹیں پھرتی ہیں کشکول لئے
کوئی سائل نہ ہو در پر دیکھو

اب تو چہروں کی حدوں سے نکلو
کوئی ہنستا ہو تو اندر دیکھو

پھول سے ہاتھ نے پھینکا تھا جسے
عمر رفتہ کا وہ کنکر دیکھو

توڑ دیتی ہے یہ دنیا کیسے
اپنے خوابوں سے نکل کر دیکھو

اپنی یادوں کا عجب سنگم ہے
رنگ بکھرے تو پکڑ کر دیکھو

اتنے چہروں میں کسی کو ڈھونڈو
کوئی لگ جاۓ جو بہتر دیکھو

اپنے ویرانے میں لوٹو تو کبھی
گھر کی دیوار گرا کر دیکھو

No comments:

Post a Comment