غزل
نہ کسی کے خواب و خیال میں، نہ
کسی کے دستِ دعا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں
متاعِ چاکِ قبا میں ہوں
مجھے دشت، دشت صدا نہ دو مجھے
لہر لہر ہوا نہ دو
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں
کسی کے عہدِ وفا میں ہوں
مجھے لوٹتے ہیں یہ لوگ کیوں،
میں کسی کا زادِ سفر نہیں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی
آرزوۓ بقا میں ہوں
مجھے شام شام نہ سوچنا، مجھے
رات رات نہ جاگنا
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں
اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں
مجھے ڈال ڈال نہ دیکھنا، مجھے
پات پات نہ ڈھونڈنا!
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں
یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں
مجھے آنکھ آنکھ نہ کھوجنا جہاں
دردِ دل کا پتہ نہ ہو
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ
انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں
مجھے لوگ کہتے ہیں زندگی مجھے
دیکھتا نہیں کوئی بھی
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر
آئینوں کی ضیا میں ہوں
میں وہ خاموشی جو دلوں میں ہے،
وہی بے کسی جو لبوں پہ ہے!
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر
ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں
جو شفق سے رنگ میں ہو کہیں،
انہیں لب سے جاکے یہ پوچھنا
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں
یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں
کبھی پر لگا کے اڑا نہیں، میں
ہوس کی کوئی صدا نہیں
No comments:
Post a Comment