Friday, December 30, 2011

غزل : جو اپنے آپ میں اک گھر دکھائی دیتا ہے

غزل

جو اپنے آپ میں اک گھر دکھائی دیتا ہے
حصارِ ذات کے باہر دکھائی دیتا ہے

ہے آئینے کا بدن سامنے کہ جس میں مجھے
کٹا پھٹا ہوا، اندر دکھائی دیتا ہے

شعورِ ذات کا اک مکر ہے ان آنکھوں پر
سراب ہے، جو سمندر دکھائی دیتا ہے

عجیب شخص ہے ہنستا ہوا سا چہرہ لئے
اجاڑ گاؤں کا منظر دکھائی دیتا ہے

عمل میں سیلِ مسلسل کے تند و تیزی کا!
شعور ہو تو مقدر دکھائی دیتا ہے

یہ کون آتا ہے چپکے سے میرے خوابوں میں
مجھے تو گھر میں کھلا در دکھائی دیتا ہے

تھکن سے چور مسافر کا اپنا سایہ بھی
کڑی ہو دھوپ تو بہتر دکھائی دیتا ہے

ہوا میں اڑتے ہوئے شخص کی یہ قسمت ہے
ہوا رکی تو زمیں پر دکھائی دیتا ہے
____________

Thursday, December 29, 2011

غزل : تنہائی کی ہو دھوپ تو سایہ نہیں ہوتا

غزل

تنہائی کی ہو دھوپ تو سایہ نہیں ہوتا
ہر تشنہ نظر آنکھ میں دریا نہیں ہوتا

ہوتی ہے کڑی دھوپ تو کیا کیا نہیں ہوتا
دیوار پر خود اپنا بھی سایا نہیں ہوتا

جب دور سے دیکھو تو ہر اک شخص ہے پورا
آتا ہے ذرا پاس تو آدھا نہیں ہوتا

بٹ جاتا ہوں خود اپنے ہی اندر بھی بہت میں
مجھ جیسا کوئی شخص ادھورا نہیں ہوتا

ظالم کی خدائی ہو تو دنیاۓ ہوس میں
ہوتا ہے بہت کچھ مگر اچھا نہیں ہوتا

حیرت میں پڑا آئینہ اب سوچ رہا ہے
کیوں سارے بدن پر کوئی چہرا نہیں ہوتا

تصویر کے رنگوں میں بکھر جاتا ہے کوئی
منظر بھی مرے خواب کا پورا نہیں ہوتا

خود اپنے ہی اندر کو سفر کرتا ہے راشد
جب سامنے اس کے کوئی رستہ نہیں ہوتا
_____________

Wednesday, December 28, 2011

غزل : تو ہے میرا نغمہ کوئی اور نہیں ہے

غزل

تو ہے میرا نغمہ کوئی اور نہیں ہے
اشکوں میں یوں ڈھلتا کوئی اور نہیں ہے

دشتِ سفر کا تھکا تھکا سا منظر ہے
مجھ میں جاگنے والا کوئی اور نہیں ہے

بادل، بارش، برق، گھٹا سب تجھ میں ہے
آج ہوا کا چہرا کوئی اور نہیں ہے

جلتی دھوپ میں سب سے اچھا خواب تمہارا
دیکھا بھالا سا یہ کوئی اور نہیں ہے

تیری پیاس کا جسم و جاں میں سیلِ رواں
مجھ میں بہتا دریا کوئی اور نہیں ہے

تجھ کو میں نے خواب کی صورت دیکھا تھا
آنکھ میں تیرے جیسا کوئی اور نہیں ہے

تیری باتیں دیواروں سے کرتا ہوں
دل کی باتیں سنتا کوئی اور نہیں ہے

آنکھ سے چھپ کر خواب میں میرے آئیگا
تیرے سامنے رستہ کوئی اور نہیں ہے
_______________

Tuesday, December 27, 2011

غزل : تھے موم سے وہ لوگ جو پتھر ہوئے نہیں

غزل

تھے موم سے وہ لوگ جو پتھر ہوئے نہیں
اتنی لچک کے بعد بھی پیکر ہوئے نہیں

خود کے محاصرے میں گزاری تمام عمر!
اور بحرِ ذات کے بھی شناور ہوئے نہیں

کیا دیکھتے جو آنکھ سے آگے بڑھے نہیں
کیا جانتے وہ دل کو جو اندر ہوئے نہیں

ہاتھوں سے چھوٹتا رہا جو کچھ ملا ہمیں
ہم اپنی بخت کے بھی سکندر ہوئے نہیں

آگاہ تھے جو اپنے رموزِ حیات سے!
خود اپنے آپ کے بھی برابر ہوئے نہیں

تھا جنکا ظرف گہرے سمندر کی طرز کا
وہ لوگ اپنی ذات کے باہر ہوئے نہیں

کیا جھیلتے وہ تیز ہواؤں کی کاٹ کو
جو پیڑ اپنے آپ تناور ہوئے نہیں

کیوں ٹھوکروں کا اپنی جبیں پر نشان ہے
ہم تو کسی کی راہ کا پتھر ہوئے نہیں
 ______________

Monday, December 26, 2011

غزل : میں وہ درد ہوں کہ جس کی کوئی اک صدا نہیں ہے

غزل

میں وہ درد ہوں کہ جس کی کوئی اک صدا نہیں ہے
مجھے ٹوٹتا جو دیکھے کوئی آئینہ نہیں ہے

یہی پتھروں کی راہیں مرے پاؤں کو ملی ہیں
ابھی سخت راستوں کا مجھے کچھ پتا نہیں ہے

مری سوچ کی دھنک پر کئی رنگ میں ہے رقصاں
مرے خوابِ زندگی سے تو کہیں جدا نہیں ہے

جو بہت سفر کیا تو یہ پتا چلا ہے مجھ کو
تری رہگزر سے ہٹ کر کوئی راستہ نہیں ہے

کوئی ایک حدِّ فاصل میرے تیرے درمیاں ہے
مرے درد کی صدا پر تو کبھی ملا نہیں ہے

وہاں کیا پہنچنا مشکل جو فلک بھی درمیاں ہو
یہ دعا کا راستہ ہے یہاں فاصلہ نہیں ہے

ترے آئینوں میں اب تک مری جاں لیز رہی ہے
انھیں آئینوں کو دیکھوں مرا حوصلہ نہیں ہے
_____________

Saturday, December 24, 2011

غزل : چشم حیرت میں مری یوں تو وہ ٹھہرا بھی نہیں

غزل

چشم حیرت میں مری یوں تو وہ ٹھہرا بھی نہیں
دیکھنا تھا جسے دم بھر اُسے دیکھا بھی نہیں

سارے چہروں پہ وہی ایک سی حیرانی ہے
زندگی جیسا کوئی اور تماشا بھی نہیں.......!

آکے ٹھہرا وہی حسرت بھرا لمحہ مجھ پر،
زندگی میں جسے شاید کبھی سوچا بھی نہیں

دل تو بھنورا تھا ہر اک پھول پہ مچلا لیکن
تجھ کو چاہا تو کسی اور کو چاہا بھی نہیں

اپنے احساسِ مقابل سے ہراساں بھی وہی
کتنا تنہا ہے وہی شخص جو تنہا بھی نہیں

غیر کے درد میں خود اپنا زیاں کرتے رہے
خود کو کھویا تو کسی اور کو پایا بھی نہیں

خود ہی بنتا ہوں بگڑتا ہوں بکھر جاتا ہوں
میں کسی اور کا گویا کہ تقاضا بھی نہیں

ڈوب جاتا ترے آنسو میں کنارا بن کر
ہے روانی پہ مگر آج یہ دریا بھی نہیں
____________

Friday, December 23, 2011

غزل : بدن سارا ہی اُس کاجاگتاہے | مری آنکھوں میں جوبھی سورہاہے

غزل

بدن سارا ہی اُس کا جاگتا ہے
مری آنکھوں میں جو بھی سو رہا ہے

چمن میں آج جو نغمہ سرا ہے
یہ اک غمگین موسم کی ہوا ہے

مجھے رشتے کی ڈوری سے نہ جوڑو
مجھے ٹوٹے ہوئے عرصہ ہوا ہے

کسے آواز دیتے ہو یہاں تم.....!
یہ انسانوں کا شہرِ بے صدا ہے

جسے سایہ سمجھتا تھا میں اپنا
وہ میرے سامنے آکر کھڑا ہے

ابھی تک تیرے میرے درمیاں بھی
تری حدّ ِ نظر کا فاصلہ ہے

مرے جذبات کا سارا طلاطم!
مرے دل کا سمندر کھا گیا ہے

محبت ریت کا کچا مکاں ہے
گری دیوار تو سب نے کہا ہے

بہت ہی شوروغل کے درمیاں ہے
اسی ڈر سے وہ تنہا ہو گیا ہے

یہ راشد فاصلوں کا درد لے کر
بہت سی قربتوں میں جی رہا ہے
___________

Wednesday, December 21, 2011

غزل : ہماری صدا سب ہوا لے گئی | سماعت سے تم کو بچا لے گئی

غزل

ہماری صدا سب ہوا لے گئی
سماعت سے تم کو بچا لے گئی

پہاڑوں کے سینے پہ کم بوجھ ہے
ندی کتنے پتھر اٹھا لے گئی

نظر میں فریبِ نظر بھی نہیں
محبت اِن آنکھوں سے کیا لے گئی

کسی در پہ بیٹھی ہوئی آرزو
ہتھیلی سے رنگِ حنا لے گئی

مرے دل کی ایماں فریبی ہوس
مرے لب سے ساری دعا لے گئی

ابھی کھیل ہی کھیل میں اک نظر
مرے دل کو اپنا بنا لے گئی

وہ صورت جو دل میں تھی بیٹھی ہوئی
مرے دل کی آہٹ چرا لے گئی

سخن ور تو راشد بھی کچھ کم نہیں
غزل جس کی طرزِ ادا لے گئی
______________

Tuesday, December 20, 2011

غزل : سولی پر اب لٹکا ہوں : زورِ ازل سے سچا ہوں

غزل

سولی پر اب لٹکا ہوں
زورِ ازل سے سچا ہوں

تم کو کیوں کر جھٹلاؤں
کہتے ہو تو اچھا ہوں

ڈوری کٹتے دیکھا ہے
تیرے درد کا رشتہ ہوں

تیری چاہت میں اب تک
اپنی آنکھ کا دریا ہوں

تیز ہوا سے سہما ہوا
کچی ڈال کا پتا ہوں

تم کیا جانو خوش ہوں یا
اپنی خوشی کا سایا ہوں

اِنکا اُنکا دل پر میں
رَوگ لگاۓ پھرتا ہوں

تیری پُتلی میں رہ کر
تیری نظر کا دھوکا ہوں

اپنے آپ سے ڈر کر میں
سایا سایا چلتا ہوں
____________________

Monday, December 19, 2011

غزل : تھی نظر میں مری کمال کی شکل

غزل

تھی نظر میں مری کمال کی شکل
گھٹ کے جو رہ گئی ملال کی شکل

لفظ اپنے تھے، جسم تیرا تھا
بن گئی یوں ترے جمال کی شکل

زخم ہنس ہنس کے مجھ سے کہتا ہے
کوئی نکلے گی اندمال کی شکل

حسن آیا پگھل کے آنکھوں میں
کس نے دیدی اسے خیال کی شکل

جانے دنیا کہاں لے آئی ہے
آج ہر شخص ہے سوال کی شکل

گردِ آئینہ صاف کرلے تو
دیکھ ماضی میں اپنے حال کی شکل

آرزوئیں، دھنک سے رنگوں میں
لمس کہ اب ہے یہی محال کی شکل
_____________

Sunday, December 18, 2011

غزل : ہے صاف و سادہ وہ آب جیسی

غزل

ہے صاف و سادہ وہ آب جیسی
مگر ابھی تک ہے خواب جیسی

نہ فاصلہ ہے نہ قربتیں ہیں
ہے بے رخی بھی حجاب جیسی

نہ اس قدر دل میں ولولے ہیں
نہ آگہی ہے جناب جیسی

یہ سر پرستی بھی آپ کی اب
ہمیں لگے ہے حساب جیسی

حیات دریا سے کہہ گئی ہے
ہر ایک شے ہے حجاب جیسی

یہ تشنگی کا کھلا سا منظر!
ہر ایک شے ہے سراب جیسی

خوشی نہ دے توخوشی کی خاطر
کوئی پلا دے شراب جیسی

ہے سادہ رنگوں میں سرخ کتنی
ہے سادگی بھی عتاب جیسی
____________

Saturday, December 17, 2011

غزل : چلتے رہو سفر پہ مقدر سی دھوپ میں

غزل

چلتے رہو سفر پہ مقدر سی دھوپ میں
ہجرت نے اوڑھ رکھی ہے چادر سی دھوپ میں

تھا آئینوں میں درد کے سورج کا ایک نقش
آنکھیں ہماری ہو گئیں پتھر سی دھوپ میں

وہ بھی مرے گماں کی حدوں سے گزر گیا
تتلی کا جیسے سایہ سمندر سی دھوپ میں

ہے آج ایک شیشے کی دیوار درمیاں
بینائی اپنی ہو گئی بے گھر سی دھوپ میں

محسوس یہ ہوا ہمیں اندر کی آگ سے!
جلتے رہے ہیں ہم بھی سمندر سی دھوپ میں

حسنِ خیالِ یار کا اعجاز دیکھئے......!
پرچھائیاں بھی بن گئیں پیکر سی دھوپ میں

جذبات کے پگھلنے کا راشد سماں بندھے

لاؤ کوئی غزل ذرا بہتر سی دھوپ میں
____________


Friday, December 16, 2011

تین شعر

تین شعر

اپنے ویرانے سے کیوں آج کٹے ہے بارش
جاکے کہسار کے دامن میں سجے ہے بارش

جن ہواؤں پہ لکھا تھا یہ مقدر اپنا
ان ہواؤں سے بہت دور چلے ہے بارش

جب سے بچھڑے ہو، رُتوں کا بھی چلن دیکھ لیا
ایک جوگن کی طرح جیسے جلے ہے بارش
___________________

 

Thursday, December 15, 2011

غزل : کالی گھنی تھی مگر روشنی کی آس پر رات بسر ہو گئی

غزل

کالی گھنی تھی مگر روشنی کی آس پر رات بسر ہو گئی
پلکوں تلے خواب تھے چنتے رہے جن کو ہم اور سحر ہو گئی

عکس کو پہنے ہوئے آئینوں کے درمیاں قید رہا عمر بھر
اور مری زندگی دھند کی یلغار میں صرفِ نظر ہو گئی

تجھ سے بچھڑ کر مری آرزوۓ زندگی بن کے کٹی تشنگی
اور مری شاعری ڈھل کے اسی درد میں، رشکِ ہُنر ہو گئی

آنسوؤں کے ساز پر، ہجر کی مضراب سے گیت کوئی بن گیا
مری رہِ زیست پر اس کی حسیں نغمگی، رختِ سفر ہو گئی

اپنے شب و روز پر تیرۂ تقدیر کا ابر تھا پھیلا ہوا
عرش کو دیکھا کئے خاک نشیں تھے جو ہم یوں بھی بسر ہو گئی

دشت سفر میں فقط ایک اپنی ذات ہے، زادِ سفر کچھ نہیں
اب تو یہی ہے میاں اوڑھ لو پرچھائیاں دھوپ اگر ہو گئی

بات چلی رات کی، میں نے کہا چاند ہو میری شبِ زیست کا
میری اِسی بات سے اُن کو ہر اک رات میں فکرِ سحر ہو گئی
____________________

Wednesday, December 14, 2011

غزل : ملا تھا خواب کی صورت وہ میرا خواب رہا

غزل

ملا تھا خواب کی صورت وہ میرا خواب رہا
کہ جنگلوں میں کِھلا تھا مگر گلاب رہا

مثالِ اشک اُسے میں نے آنکھ میں رکھا
صدف بنا بھی وہ ایسا کہ زیرِ آب رہا

وہ ایک لمحہ جو خوشبو کا اُس نے ہم کو دیا
ہماری جاں پہ اُسی قرض کا عذاب رہا

حسین لفظوں کی پوشاک میں تھا پوشیدہ
میری غزل میں وہ آیا تو بے نقاب رہا

سمیٹتی رہیں یادیں تک اُس کو بانہوں میں
بھنور کی گود میں رہ کر بھی وہ حُباب رہا

نہ جانے جسم پہ میرے یہ کس کا چہرا تھا
کہ آئینے سے بھی اکثر مجھے حجاب رہا

بہاؤ خون کا رَگ رَگ میں ہو، کہ بڑھتے قدم
سفر میں ساتھ سدا میرے اک سراب رہا ہے 
________________


Tuesday, December 13, 2011

غزل : اِسی اک بات کا مجھ کو نشہ ہے

اِسی اک بات کا مجھ کو نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے

مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے

میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے

ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے

زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے

میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے

بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے

یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے
 __________