غزل
جو اپنے آپ
میں اک گھر دکھائی دیتا ہے
حصارِ ذات کے
باہر دکھائی دیتا ہے
ہے آئینے کا
بدن سامنے کہ جس میں مجھے
کٹا پھٹا
ہوا، اندر دکھائی دیتا ہے
شعورِ ذات کا
اک مکر ہے ان آنکھوں پر
سراب ہے، جو
سمندر دکھائی دیتا ہے
عجیب شخص ہے
ہنستا ہوا سا چہرہ لئے
اجاڑ گاؤں کا
منظر دکھائی دیتا ہے
عمل میں سیلِ
مسلسل کے تند و تیزی کا!
شعور ہو تو
مقدر دکھائی دیتا ہے
یہ کون آتا
ہے چپکے سے میرے خوابوں میں
مجھے تو گھر
میں کھلا در دکھائی دیتا ہے
تھکن سے چور
مسافر کا اپنا سایہ بھی
کڑی ہو دھوپ
تو بہتر دکھائی دیتا ہے
ہوا میں اڑتے
ہوئے شخص کی یہ قسمت ہے
ہوا رکی تو زمیں پر دکھائی دیتا ہے
____________