میں اپنے حرف اول سے ہی تجھ کو : بیاض دل پہ لکھتا آ رہا ہوں :: خواب آنکھیں
Khwaab Aankhen
Mohammad Yahya Farooqui
Friday, December 7, 2012
Tuesday, September 11, 2012
نظم : آخری نظم
مری دنیا، مرا لمحہ، مری زیست
آخری وقت میں سب چھوڑ چکے ہیں
مجھ کو
پاؤں لرزاں ہیں جہاں پہلے کھڑا
تھا میں
اب کہاں ہے مری شاداب جوانی کی
بہار
اب نہیں ہے، نہ تو آئے گی کبھی
اِس شب و روز کے آلام سے عاجز
آکر
میری ہر ایک خوشی روٹھ چلی ہے
مجھ سے
نہ تو سرما، نہ تو گرما، نہ
بہاریں شاداب
اے دل ِ مردہ فقط غم سے، فقط
غم سے بہل
ہاں مسرت کبھی آئی تھی نہ آئے گی کبھی
_________________
A Nazm by Rashid Fazli |
ترجمہ O World O Life O Time, by P.B. Shelly
Monday, September 10, 2012
نظم : سازِ زندگی
ساز کے تار تو ٹوٹے ہوئے مدت
گزری
پھر بھی اک لَے مری تخئیل میں
لہراتی ہے
گل اگر سوکھ بھی جاۓ تو یہ
نکہت اس کی
مدتوں حافظہ و یاد کو مہکاتی
ہے
گل بکھرتا ہے تو بکھرے ہوئے
برگِ گل سے
بستر حسن کو رہ رہ کے سجاتا
ہوں میں
اور یادوں سے تری، تیرے چلے
جانے پر
خود محبت کو تھپکتا ہوں سُلاتا ہوں میں
_________________
A Nazm by Rashid Fazli |
ترجمہ Music When Soft Voice Die, by P.B. Shelly
Labels:
Mohammad Yahya Farooqui,
Nazm,
Poetry by Rashid Fazli,
Rashid Fazli,
Shelly,
Translation,
Urdu Poetry
Saturday, September 8, 2012
نظم : وقت
Labels:
Mohammad Yahya Farooqui,
Nazm,
Poetry by Rashid Fazli,
Time,
Urdu Poetry,
Waqt
Friday, September 7, 2012
Thursday, September 6, 2012
Wednesday, September 5, 2012
نظم : قرض
تجھ پہ میری چاہت کا
ایک ہی تو قرضہ ہے……
تجھ کو مجھ سے ملنا ہے!
__________________
Qarz, A Nazm by Rashid Fazli |
model in image - Rana, image used with permission
Tuesday, September 4, 2012
نظم : خوف
کڑی دھوپ کا یہ تقاضا ہے چلتے
رہو
اپنے ساۓ سے ڈرتے رہو،
اندھیرے کی جھولی کھنگالو تو
تم کو
پتہ یہ چلے گا
کہ کھائی دھویں کی، بہت دور
تمہاری اِن آنکھوں کے ہر نور
کی منتظر ہے
کڑی دھوپ کا یہ تقاضا ہے چلتے
رہو
ان اندھیروں سے ڈرتے رہو
جو تمہارے ہی سینے میں بیٹھے
ہوئے ہیں!!
__________________
Monday, September 3, 2012
نظم : ناتواں
شعاعیں اندھیروں کی بستی میں
گم ہیں
اِن آنکھوں سے کہہ دو نہ
دیکھیں وہ سب کچھ
جنہیں اپنے ناخُن پہ ھم نے
سجایا
وہ اجداد کا قرض
ادا کرنا جس کو، وطیرہ بنایا
صعوبت میں سانسوں کا قرضہ
چکایا
اندھیروں کی یلغار بڑھنے لگی
ہے
کسی سمت دیکھوں
اب آنکھوں میں کوئی کرن ایسی
باقی نہیں ہے
جو جاکر،
اندھیروں کے اس دودھیا جال کو
کاٹ کر پھینک دے،
ہو ممکن تو آنکھوں کی ساری
شعاعیں
کہیں اپنی پتلی میں محفوظ رکھو
قیامت کے دن اپنے اجداد کو
جاکے واپس کرو
قرض ِ دنیا نہ دے پاؤ تو
قرض ِ عقبیٰ تو دو!!
_____________
A Nazm by Rashid Fazli |
Saturday, September 1, 2012
غزل : روز ہی گھٹتا بڑھتا ہے
روز ہی گھٹتا
بڑھتا ہے
دل میں دکھ
کا دریا ہے
تیرے عشق کا
پاگل پن!
دیواروں پر
لٹکا ہے
میں بھی برگِ
آوارہ
تو بھی ہوا
کا جھونکا ہے
تشنہ لب اب
کیا مانگیں
دریا بھی تو
پیاسا ہے
رنگ سُنہرا،
یادوں کا
ایک طلسمی
دھوکہ ہے
جاگنے والی
آنکھوں کا
دکھ بھی پتھر
جیسا ہے
خوش وہ نہیں
ہے اندر سے
مجھ میں جو
بھی رہتا ہے
تیز ہوا کی
زد پر ہے
ریت پہ جو
کچھ لکھا ہے
میری قسمت
میں شاید
اپنا ہی اِک
سایہ ہے
ان آنکھوں کے
سائے میں
کوئی ابھی تک
جلتا ہے
راشدٌ جانے
راتوں سے
کیا کچھ کہتا رہتا ہے
__________________
A Ghazal by Rashid Fazli |
Monday, August 27, 2012
غزل : رنگ بدلتے جاؤ منظر خود بدلتے جائیں گے
رنگ بدلتے
جاؤ منظر خود ہی بدلتے جائیں گے
آتی رُت میں
جاتی رُت کے جذبے پگھلتے جائیں گے
آج سنپیرے جادوگر
کچھ ایسے بھی مل جائیں گے
سانپ نگلتے
جائیں گے جو زہر اُگلتے جائیں گے
سپنے نئے
جگاتے جاؤ، جھوٹی آس دلاتے جاؤ
ہم خوابوں پر
جینے والے یوں بھی بہلتے جائیں گے
خون جلا ہے
جن کے دل کا، آنسو اُن کے لفظ بنے
آبِ رواں پر
لکھنے والے خود بھی پگھلتے جائیں گے
رنگ برنگی
تتلی جیسی لاکھوں خواہش دنیا کی
اِس دنیا سے
جانے والے ہاتھ ہی ملتے جائیں گے
شوق ِ سفر
میں گھا ٹا کیسا، جادے کی زنجیر کہاں
ہم رُک جائیں
گے تو ہمارے رستے چلتے جائیں گے
اپنی سوچیں
ساری ہم تو، کل پرزوں کو سونپ چکے
تصویروں میں
کاغذ کی ہم آج سے ڈھلتے جائیں گے
دشتِ سفر میں
آبلے سارے خون کے آنسو روئیں گے
چلتے رہو تو تلووں کے سب خار نکلتے جائیں گے
Saturday, August 25, 2012
غزل : تو نہیں، درمیاں
تو نہیں،
درمیاں
آئینے، بے
سماں
ہجر کی
داستاں
تم وہاں، ہم
یہاں
ذائقے، درد
کے
بے زباں، بے
زباں
پیار کے خواب
میں
تو جہاں، میں
وہاں
ظلمتیں،
ظلمتیں
روشنی، بے
اماں
گھر بھی اب،
گھر نہیں
ہم ہوئے، بے
مکاں
دور تک زندگی
لمحۂ رائیگاں
تم وہی، ہم
وہی
بات اب وہ
کہاں
دل بھی اک
آبلہ
درد کے
درمیاں
بات ہی بات
ہے
ہے ہُنر اب
کہاں
آج راشدٌ پہ
ہے
اک غزل مہرباں
Thursday, August 23, 2012
غزل : جن راہوں پر میں چلتا ہوں تم نہ چلو تو بہتر ہے
جن راہوں پر
میں چلتا ہوں تم نہ چلو تو بہتر ہے
بھیڑ بہت ہے،
تنہائی ہے جان سکو تو بہتر ہے
درد کی ان
راہوں پر شاید، دونوں اکیلے رہتے ہیں
دنیاداری بھی
اک شے ہے، ساتھ چلو تو بہتر ہے
اپنی چھت اور
دیواروں سے باتیں کرتے تھک جاؤ گے
اپنے سونے پن
سے باہر جاکے رہو تو بہتر ہے
جانے تم کو
کس حالت میں کن موڑوں پر چھوڑ چلے
اپنے اپنے
سائے سے بھی ڈرتے رہو تو بہتر ہے
ایک اشارے پر
اس کے اب ٹوٹ ہی جانا ہے تم کو
آنکھ کا آنسو
بن جانے پر پھر نہ رکو تو بہتر ہے
__________________
A Ghazal by Rashid Fazli |
Tuesday, August 21, 2012
غزل : پیروں تلے زمیں نہیں اک آسماں تو ہے
پیروں تلے
زمیں نہیں اک آسماں تو ہے
میرا جو کوئی
گھر نہیں تیرا جہاں تو ہے
یہ زندگی
اجاڑ سا صحرا سہی مگر
کوئی خیال و
خواب میں میرے نہاں تو ہے
لغزش ہزار
میرے قدم سے لپٹ گئی
پر اک قدم پہ
تیرا ہی کون و مکاں تو ہے
پندار اپنا
لے کے جیا اور مر گیا
تو جو نہیں
جہاں میں تری داستاں تو ہے
میں نے تجھے
بنا دیا اپنی غزل کی روح
تو دیکھ اس
میں میرے لہو کا نشاں تو ہے
کچھ یہ کشید
کم نہیں اب زیست کے لیے
ہجرت کا درد
خون میں میرے رواں تو ہے
راشدٌ بھلائی
کر کے تُو دریا میں ڈال دے
اس کا صلا یہاں نہیں لیکن وہاں تو ہے
_____________
click the image to enlarge
A Ghazal by Rashid Fazli |
Sunday, August 19, 2012
غزل : کھلونا ہوں ترا لیکن یہ حد ہے
کوئی آنکھوں
میں میری جاگتا ہے
مرے خوابوں
میں اکثر بولتا ہے
کسی دہلیز کی
میں آرزو ہوں
مجھے آنکھوں
سے کوئی سوچتا ہے
اسی اک شخص
سے کترا رہا ہوں
مجھے جو میرے
اندر دیکھتا ہے
کھلونا ہوں
ترا لیکن یہ حد ہے
مرا سایا بھی
مجھ سے کھیلتا ہے
جسے آنکھوں
سے بے گھر کر دیا تھا
وہ آوارہ سڑک
پر گھومتا ہے
نفی ہوکر بھی
اپنی جی رہا ہے
ہر اک شخص
اپنا رتبہ جانتا ہے
مسافر ہو تو
ٹھہرو تم اُسی گھر
محبت سے
تمہیں جو روکتا ہے
چلو دیکھیں
عروج ِ فن کہاں ہے
نئی رہیں یہ راشدٌ کھولتا ہے
___________
A Ghazal by Rashid Fazli |
Friday, August 17, 2012
غزل : کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کبھی زندگی
جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کوئی ٹوٹتا
ہوا خواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
یہ تمہارے
ہونٹوں کی تشنگی، کبھی سیل ِ خوں میں سفر کرے
جو نظر کے
آگے سراب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کبھی اپنے
قرضۂ جان کا، کبھی زخم ہاۓ گداز کا
تمہیں دینا کوئی
حساب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
یوں خلا میں
گھورتے گھورتے کوئی لمحہ ایسا ٹھہر پڑے
کہ سوال ہو
نہ جواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
وہی تازگی ہے
درون ِ دل، مرا زخم ناب کھلا ہوا
تمہیں دیکھنا
جو گلاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کسی دل گرفتہ
خیال سے جو تمہاری آنکھیں امنڈ پڑیں
کوئی موج ِ
خوں تہۂِ آب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
بڑی بے ثبات
ہے زندگی کسی موج ِ آب کے زور پر
کہیں تیرتا
جو حُباب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کسی آس پر
کٹے زندگی، کبھی آسماں پر نظر اٹھے
تو دعا سے تم
کو حجاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
مرے بخت کی
یہ نوشت بھی ہے سیاہیوں سے لکھی ہوئی
جو تمہارے
آگے کتاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
___________________
A Ghazal by Rashid Fazli |
Tuesday, August 14, 2012
غزل : وہی تیز و تند ہوا کا رخ، مری جاں کے پیچھے لگا ہوا
وہی تیز و
تند ہوا کا رخ، مری جاں کے پیچھے لگا ہوا
جسے سطح ِ آب
پہ چھوڑ کر میں سکوتِ بحر ِ بلا ہوا
یہ عجیب
خواہش جست تھی کہ کہیں مقام نہ مل سکا
نہ زمیں پہ
اپنے قدم رکے نہ ہوا سے میرا بھلا ہوا
وہی روز و شب
کی مسافتیں کسی جستجو کسی درد کی
وہی پھیلتے
ہوئے راستے، یہی پاؤں میرا تھکا ہوا
جو قریب ہے
وہی زندگی جو بعید ہے وہ خیال ہے
تو قریب آ
مری آرزو مری جاں کا در ہے کھلا ہوا
جو محال ہے
وہ کمال ہے جو کمال ہے وہ مثال ہے
میں عروج ِ
فن کی تلاش میں رہا حسرتوں سے جڑا ہوا
اِسی انتظار
کی راہ پر وہ ہجوم ِ شوق گزر گیا
تجھے دیکھتا
کوئی رہ گیا ترے راستے پہ کھڑا ہوا
اِسی مستعار
سے نام میں یہ وجود میرا دبا رہا
میں شعور ِ ذات لئے ہوئے پس ِ آئینہ تھا پڑا ہوا
______________
A Ghazal by Rashid Fazli |
Friday, August 10, 2012
غزل : اِس نگر میں جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی
اِس نگر میں
جو بھی ہے اپنا، پرایا اجنبی
جل رہا ہوں
دھوپ میں تو میرا سایا، اجنبی
کون پہچانے
گا تم کو دور جب گھر سے ہوئے
چھوڑ کر اپنے
کناروں کو ہے دریا، اجنبی
ڈھونڈھتا ہوں
اپنے لوگوں میں میں اپنے آپ کو
کیا کہوں کہ
شہر دل میں جو بھی آیا، اجنبی
تیر کس کا
تھا نشانہ کون تھا جانا نہیں
بیچ میں جس
کے میں آیا زخم کھایا اجنبی
ہر طرف
آنکھیں بچھی ہیں میں نظر آتا نہیں
ڈھونڈھ کر
دکھاۓ کوئی میرے جیسا اجنبی
صبح کو مل کر
گیا ہے شام کو انجان ہے
جان کر جس کو
نہ جانے میں وہ تنہا اجنبی
ایک مدت تک فریبِ
ہمسفر کھاتے رہے
ساتھ جو چلتا
رہا اس کو بھی پایا، اجنبی
چاہتوں کے
درمیاں بھی اس طرح ملتے ہیں لوگ
شہر میں ہو
جاۓ جیسے گاؤں والا اجنبی
اجنبی راہوں
میں ملتے ہو تو ہوتی قدر ہے
کھوج لو بہتر
ہے راشدٌ کوئی رستہ اجنبی
__________________
A Ghazal by Rashid Fazli |
Monday, August 6, 2012
غزل : کسی کی ابھی چشم تر گرم ہے
کسی کی ابھی
چشم ِ تر گرم ہے
اسی واسطے یہ
سفر گرم ہے
چھوا کس نے
آبِ رواں صبح کو
ندی کا بدن
کس قدر گرم ہے
یہ کیسا سفر
ہے مرے دوستو!
نہ جلتا بدن
ہے نہ سر گرم ہے
جدھر سے وہ
گزرا تھا مدت ہوئی
سنا ہے وہ
راہِ گزر گرم ہے
جلائی تھی اک
آگ ہم نے کبھی
اسی سے یہ
شام و سحر گرم ہے
شرافت پہ اک
شخص زندہ رہا
مرے شہر میں
یہ خبر گرم ہے
کوئی برق آسا
بدن دیکھ کر
ہر اک آدمی
کی نظر گرم ہے
ہنر کوئی
راشدٌ نے سیکھا نہیں
ہر اک بزم میں وہ مگر گرم ہے
____________
Please click on the image to enlarge
A Ghazal by Rashid Fazli |
Subscribe to:
Posts (Atom)