Monday, April 30, 2012

غزل : اس کے آگے میرا ہنر کم ہے

اس کے آگے میرا ہنر کم ہے
خون ِ دل کا گہر گہر کم ہے

جل رہے ہیں چراغ الفت کے
روشنی ہے مگر نظر کم ہے

میری قسمت میں ہجرتیں اتنی
زندگی بھر کا یہ سفر کم ہے

اس قدر تیرگی ہے آنکھوں میں
روشنی کے لئے سحر کم ہے

اُس مسافر کا یہ بہانہ ہے
میری آنکھوں کی رہگزر کم ہے

ہے بڑی کائناتِ ارض و سما
خواہشوں کے لئے مگر کم ہے

مر گیا کوئی اس کی چاہت میں
سانحے کی اُسے خبر کم ہے

لب پہ الفاظ ہیں محبت کے
دل میں جذبات کا شرر کم ہے

اڑ رہا ہے ہواؤں میں راشدٌ
جرائتِ بال و پر مگر کم ہے
___________

Rashid Fazli Poetry

Thursday, April 26, 2012

نظم : بیتی رُت کی ایک نظم

 ابھی آئینے کو نہ توڑو
کہ مدِ مقابل
تمہارا ہی چہرہ
تمہیں ڈھونڈتا ہے
کئی سال پہلے
کہیں کھو گئے تھے
ابھی آئینے کو نہ توڑو
کہ تم
اپنے چہرے کو پہچانتے بھی کہاں ہو؟
ابھی آئینے کو نہ توڑو
ابھی آئینہ تم کو پہچان لے گا!!
______________
 
Beeti Rut Ki Ek Nazm : Rashid Fazli Poetry
 

Monday, April 23, 2012

نظم : ایک منظر

آم کے باغ کی کوئل
پیپل پر بیٹھے ہریل
ببول کے سنہرے تیتر
گھر کے نیم پر بیٹھی مینا
طاق میں اونگھتے کبوتر
ڈالوں پر جھولتی فاختائیں
لہلہاتے کھیتوں پر ڈولتی
سرخ گلابی ننھی چڑیاں
شہر کے اسٹوڈیو میں
یا پھر پینٹنگ کی دکانوں پر
کس قدر اچھے لگتے ہیں
کیونکہ،
ہم گاؤں سے شہر آکر
کتنے نابینا ہو چکے ہیں!! 
_____________
 
Rashid Fazli Poetry
 

Saturday, April 21, 2012

نظم : Anguish

میں سارے سمندر کا پھیلا زہر پی بھی جاؤں
تو کیا،
مری اس زمیں کا چلن بھی بدل جائیگا
ستاروں کی گردش تو جاری رہے گی
اسی طرح جیسے،
کہ کمہار کا چاک تیزی سے محور پہ چلتا رہے
اور.....
مٹی سے سب کو کھلونا بناتا رہے!!!
________________

Anguish - A Poem by Rashid Fazli

Friday, April 20, 2012

نظم : احساس

دھویں کی کسیلی چبھن
اپنی آنکھوں میں محسوس کر لو
تو سمجھو
کہ تم مر چکے ہو
ہوا سرد ہے،
تن کے کپڑوں سے باہر نہ نکلو
کفن بھی غنیمت ہی جانو
کہ مٹی تمہیں کاٹ کر پھینک دے گی
ہوا سرد ہے
اور تم مر چکے ہو! 
_______________
 
Poetry by Rashid Fazli
 

Monday, April 16, 2012

نظم : وقت

وقت کے اندھیروں سے
تم اُبھر کے آتے ہو،
اور ان اجالوں میں ہم تو ڈوب جاتے ہیں........!
___________

Waqt : Rashid Fazli Poetry

- background used is taken from Sophiefzy's work.

Saturday, April 14, 2012

نظم : صحرا کی نظم

میں سرابوں کا فریب
تشنگی میری حقیقت
زندگی میری نفی
دل اداسی کا سمندر
رنگ دھوپیلا، سنہرا
خون، پانی جیسے گدلا
پاؤں گویا، راستے کا سنگِ میل
ہاتھ، اک ٹہنی بُریدہ
آنکھ، بے نوری کا شکوہ
پیٹ، بھوکوں کی دعا
اور باقی کیا بچا
میں سرابوں کا فریب
تشنگی میری حقیقت
تشنگی میری جزا!! 
______________
 
Sehra ki Nazm : A Poem by Rashid Fazli
 

Wednesday, April 11, 2012

نظم : اُف یہ لوگ

یہ گملے کے پودے،
جو مٹی کی نسلوں سے واقف نہیں ہیں
ہوا، روشنی اور پانی کے پھینکے ہوئے
چند تقدیر کے جھوٹے ٹکڑوں پہ
یوں پل رہے ہیں
کہ جیسے سڑک کا کوئی ایک مخروش کتا
ڈسٹ بن سے ملی نعمتوں پر پلے
مگر اپنی مٹی سے واقف نہیں ہیں
کہ ہر بار گملے سے اوپر نکل کر
آسمانوں کو آنکھیں دکھانے لگے ہیں
یہ گملے کے پودے،
جو مٹی کی نسلوں سے واقف نہیں ہیں
نہیں جانتے ہیں کہ مٹی انہیں آن کی آن میں
خاک کرنے کا حربہ ہر اک جانتی ہے
انہیں اپنی نسلوں سے پہچانتی ہے........!! 
 ______________

Nazm by Rashid Fazli

Monday, April 9, 2012

نظم : موت

میں اپنے کاندھے پہ اپنا سر رکھ کے رو رہا ہوں
بہت سے رشتے رفاقتوں میں گھرا ہوا ہوں

طلائی لفظوں، رسیلی باتوں کو کان سُن سُن کے پک چکے ہیں
کسے پکاروں؟

میں ایک صحرا ہوں زندگی کا
کہ جس میں آواز کا یہ جادو پہنچ کے ایسا بکھر چکا ہے
کہ میرے اپنے بھی آنسوؤں میں
جلن کی شدت کا اک ڈراما سا لگ رہا ہے
میں خود پہ رونا بھی چاہتا ہوں
مگر کوئی ہاتھ پھر سے شانے پہ میرے آکر یہ کہہ رہا ہے
"فریب کھانا بھی زندگی ہے.
تم اپنے رشتوں، رفاقتوں سے فریب کہا کر
بھی جی رہے ہو"

یہی تو میں خود سے پوچھتا ہوں
کہ اس خرابے میں کون زندہ بچا ہے اب تک
ہر ایک اپنے کو رو رہا ہے!!
______________

Death, the poem by Rashid Fazli

Saturday, April 7, 2012

نظم : آج، کل اور کل کے بعد

نظر کے تعاقب میں بیٹھی ہوئی خواہشیں
زیر لب مسکراتی ہوئی کروٹیں
داستان محبت کی چوکھٹ سے
لپٹی ہوئی، بے بسی، زندگی
لوح تربت پہ کندہ کچھ الفاظ ہیں
جو صحیفوں میں پہلے بھی لکھے گئے
موت سن کر کسی کی کوئی آج روتا نہیں
موت گویا کہ اب سانحہ بھی نہیں
زندگی!
لوح تربت پہ کندہ کچھ الفاظ ہیں
زندگی بھی نہیں،
پھر یہ جدوجہد کس لئے
شور غل کس لئے......
دور پھیلے ہوئے ایک صحرا میں ہم
جنگ کے منتظر،
آہنی آدموں کے قوی جسم کی
بے ضرورت سی ایجاد میں
آج مصروف ہیں......
جنگ ہوگی مگر،
کس کو مرنا ہے ابتک یہ معلوم کرنے کی کوشش کسی نے نہ کی
یوں تو موجودہ نسلوں کی تربت کو کھنڈر بنے،
ایک عرصہ ہوا!
اور نسلیں جو اب آئیں گی
وہ پہلے سے مرنے کو تیار ہیں یہ غلط ہے
وہ پہلے بھی کتنی دفعہ مر چکی ہیں
نظر کے تعاقب میں خواہش نہیں،
حیرتیں ہیں
مگر یہ کہاں ہیں،
مگر یہ کہاں ہیں.....!!!
__________

Nazm by Rashid Fazli

Friday, April 6, 2012

نظم : لکیریں

(اس بچے کے نام جس نے قلم پکڑنا شروع کر دیا ہے)

یہ ساری لکیریں جو تم کھینچتے ہو
ہماری ہتھیلی پہ پھیلی ہوئی ہیں
ہمارا شجر ہے، تمہارا مقدر
مقدر کے سارے شجر جھولتے ہیں
دکھوں کی یہ دنیا،
دکھوں کی یہ دنیا،
پہاڑوں کے پھیلے سمندر میں ڈالو
نئی کوئی بستی زمیں سے اُگاؤ
تھکن اپنے شانے سے نیچے اتارو
سہانے سفر کا حسیں خواب دیکھو
لکیروں کی الجھن دلوں سے نکالو
مرے پاس آؤ
مرے پاس آؤ
رگوں میں لہو کی کرامت کا قصہ
ابھی زندگی کی طرح گونجتا ہے
یہ بے حس لکیریں جو بے نام سی ہیں
یہ اک کھیل ہے،
بس تمہارے لئے ہے
یہ ساری لکیریں جو تم کھینچتے ہو
ہماری ہتھیلی سے باہر نہیں ہیں!!!
______________
 
Nazm by Rashid Fazli
 

Thursday, April 5, 2012

نظم : رات، آنکھیں، سمندر

سبب کچھ بھی ہو،
روشنی کا سمندر مجھے گھورتا ہے
کہ میں اب فریبِ نظر میں مقید نہیں ہوں
سمندر کے سارے اندھیروں کے سرِّ نہاں پر
قدم رکھ چکا ہوں
یہ وہ روشنی ہے
اگر آئینے پر پڑے
اور وہی آئینہ آنکھ کے سامنے ہو
تو ساری بصارت تمہاری
کسی برق آسا چمک سے
تمہاری ہی آنکھوں سے لے جائے گا
فقط رات باقی رہے گی
خطا میری یہ ہے کہ میں رات کے اس اندھیرے کا منکر نہیں ہوں
پسِ پردہ جو ہے اُسے دیکھتا ہوں
سمندر سے کہدو مجھے اب نہ گھورے
کہ میں روزِ اول سے اس کا شناور رہا ہوں
کہاں روشنی ہے اُسے جانتا ہوں
میں اس کے اندھیرے کو پہچانتا ہوں
_____________

Nazm by Rashid Fazli


Wednesday, April 4, 2012

غزل : ایک سناٹا سا ہے پھیلا ہوا

ایک سناٹا سا ہے پھیلا ہوا
آج دل بھی درد کا صحرا ہوا

اک دھواں سا تھا خیالوں میں مرے
آئینے میں آکے جو چہرا ہوا

عام سی اک چیز ہو بازار میں
میرا بھی کچھ اس طرح سودا ہوا

آندھیوں کے بیچ میری کیا بساط
ایک پتا شاخ پر سہما ہوا

کیا ہوا جو تیری آنکھوں سے گرا
میں کہ قطرہ تھا مگر دریا ہوا

کیا قیامت ہے کہ دیکھوں رات دن
اک سمندر پیاس کا پھیلا ہوا

وہ مرا تھا، اشک بن کر گر گیا
آج میں تنہا ہوا، تنہا ہوا

اک فرشتہ آسماں سے گر پڑے
یوں زمیں پہ آ کے میں رسوا ہوا

بوڑھی آنکھوں میں کہانی زیست کی
ایک لمحہ جیسے ہو ٹھہرا ہوا

پڑھ رہا تھا ہاتھ کی سیدھی لکیر
زندگی میں جو ہوا الٹا ہوا

سب کے ماتھے پر ہیں راشدٌ سلوٹیں
سارے چہروں پر ہوں میں لکھا ہوا
___________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Tuesday, April 3, 2012

غزل : لامکاں جب میں ہوا میرا مکاں جاتا رہا

لامکاں جب میں ہوا میرا مکاں جاتا رہا
رفتہ رفتہ اپنا احساس ِ زیاں جاتا رہا

خودفریبی کا بھرم تھا خود کو جب دیکھا نہ تھا
آئینے کو دیکھ کر سارا گماں جاتا رہا!

میری پلکوں کے تلے کچھ خواب تھے زیر ِ اماں
کھل گئیں آنکھیں مری اور سائباں جاتا رہا

جب حقیقت یہ کھلی سارا نظر کا کھیل ہے
سر سے میرے پھر تو سارا آسماں جاتا رہا

میری جاں کے آئینے میں تو اتر آیا تو پھر
تھا جو پردہ تیرے میرے درمیاں جاتا رہا

اب کہانی میں نیا کوئی جہاں پیدا کرو
اک حقیقت تھا جو پہلے وہ جہاں جاتا رہا

اب نگاہوں میں کہاں قندیل کا کوئی سماں
سیل ِ گرد راہ دیکھو کارواں جاتا رہا

اپنی دیواروں پہ آنکھیں گھورتی ہیں اب مجھے
میری تنہا زندگی کا سب نشاں جاتا رہا
__________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Monday, April 2, 2012

غزل : پھر سوال آ گیا تقاضوں کا

پھر سوال آ گیا تقاضوں کا
وقت باقی نہیں ہے باتوں کا

لہریں آتی ہیں لہریں جاتی ہیں
دل سمندر ہے تیری یادوں کا

درد بن کر دلوں میں رہتا ہوں
میں تو کتبہ نہیں ہوں راہوں کا

جسم ہی جسم ہے تمام یہاں
کوئی چہرا کہاں ہے راتوں کا

سارے ارمان ٹوٹ کر آئے
در کھلا رہ گیا تھا خوابوں کا

اب کفِ دست ہی تو ملنا ہے
طوطا اڑ جو چکا ہے ہاتھوں کا
__________
 
Ghazal by Rashid Fazli