اس کے آگے
میرا ہنر کم ہے
خون ِ دل کا
گہر گہر کم ہے
جل رہے ہیں
چراغ الفت کے
روشنی ہے مگر
نظر کم ہے
میری قسمت
میں ہجرتیں اتنی
زندگی بھر کا
یہ سفر کم ہے
اس قدر تیرگی
ہے آنکھوں میں
روشنی کے لئے
سحر کم ہے
اُس مسافر کا
یہ بہانہ ہے
میری آنکھوں کی
رہگزر کم ہے
ہے بڑی
کائناتِ ارض و سما
خواہشوں کے
لئے مگر کم ہے
مر گیا کوئی
اس کی چاہت میں
سانحے کی اُسے
خبر کم ہے
لب پہ الفاظ
ہیں محبت کے
دل میں جذبات
کا شرر کم ہے
اڑ رہا ہے
ہواؤں میں راشدٌ
جرائتِ بال و
پر مگر کم ہے
___________
Rashid Fazli Poetry |