Wednesday, February 29, 2012

غزل : جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا

جو حوصلہ نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا
قدم قدم جو رک گیا وہ راستے میں مر گیا

عجیب آدمی تھا وہ تمام عمر کاٹ کر
مسافتوں کے درد سے چُھٹا تو اپنے گھر گیا

فقط حنا کے رنگ کا خیال دل میں آنا تھا
وہ آئینے کے سامنے کچھ اور بھی نکھر گیا

عروج کی یہ آگہی کسے کہاں لبھا گئی
پہاڑ پر جو شخص تھا زمین پر اتر گیا

جو اپنے جسم و جان کو خیال کو سمیٹ کر
ہوا کے ساتھ لے اڑا تو خاک سا بکھر گیا

ہر ایک ذات کے لئے مسافرت تھی آئینہ!
جو آنکھ سے نظر گئی تو پاؤں سے سفر گیا

عجب ہے دل کا کھیل بھی جو چپ رہو تو کچھ نہیں
زبان کھول دی اگر تو اس کا سب اثر گیا
_____________


Ghazal by Rashid Fazli
 

Tuesday, February 28, 2012

غزل : اِس آئینۂ دل میں رخ ِ یار تو نہیں

غزل

اِس آئینۂ دل میں رخ ِ یار تو نہیں
ہے جاں کا اپنی کوئی طلبگار تو نہیں

اک آئینہ تھا جس میں ذرا بال پڑ گیا
یوں میرے تیرے درمیاں دیوار تو نہیں

کیوں آبلے یہ پاؤں سے ہیں بدگماں مرے
وہ راہ جس پہ چلتا ہوں پرخار تو نہیں

سر پر جہاں کے بوجھ ہو ایسا لگا مجھے
یہ عشق تیرا مجھ پہ گرانبار تو نہیں

کیوں کر رہا ہوں اپنے دکھوں کا حساب میں
میں بھی حریص ِ لذّتِ آزار تو نہیں
_______________
 
Rashid Fazli

Monday, February 27, 2012

غزل : گم کردہ تمناؤں کا ہے خواب نظر میں

غزل

گم کردہ تمناؤں کا ہے خواب نظر میں
ملتا ہے جو ہوتا نہیں نایاب نظر میں

ہر شخص کنارے پہ کھڑا ڈوب رہا ہے،
ہر دل میں چھپا دریا ہے، سیلاب نظر میں

ڈوبا ہے مرے سینے میں ہر آس کا سورج
منظر ہے سیہ رات کا بے خواب نظر میں

ناکامئی ترسیل ہُنر دیکھ رہا ہوں.....!
ہیں کتنے گہر آج تہِ آب نظر میں

چاہت کے دریچے سے کوئی جھانک رہا ہے
منظر ہے مگر آج بھی بیتاب نظر میں

کھلتا نہیں کچھ راز میری تشنہ نظر کا
اک درد کا سایہ ہے کہ مہتاب نظر میں

جس طرز میں دیکھا ہے وہ کہتا نہیں راشدٌ
آ جاتے ہیں کچھ فن کے بھی آداب نظر میں
______________


Ghazal by Rashid Fazli

Friday, February 24, 2012

غزل : جذبوں کا اِک سوکھا دریا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

غزل

جذبوں کا اِک سوکھا دریا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ
سناٹا ہے کیسا پھیلا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

سرخ گلابوں کی خاطر تو سر کٹواۓ پودوں نے
شاخوں پر ہے زخم کا چہرا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

دیکھ رہے تھے ہم دونوں ہی محرومی کی تصویریں
کوئی کسی سے اب کیا کہتا ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

اپنی اپنی ویرانی میں دیکھو سب کچھ ختم ہوا
پیار کی باتیں، روز کا جھگڑا ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

اپنا اپنا پاگل پن ہے، اپنی دھن ہے، اپنی مستی
عشق ہے کتنا گونگا بہرا، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

پہلے پیار کی پہلی سازش میں تو دونوں شامل تھے
کس نے کھایا کس سے دھوکہ، ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

زیست کے لمبے عرصے میں ہو جیسے سب کچھ سویا سویا
جاگ رہا ہے درد کا رشتہ ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

اپنے قدم کی ہر جنبش کو جس پر رکھ کر آئے تھے
بول رہا ہے اب وہ رستہ ہم بھی چپ اور تم بھی چپ

روتے، ہنستے، جاگتے سوتے ہم بھی قصّہ بن جائینگے
راشدٌ اِک دن ہوگا ایسا ہم بھی چپ اور تم بھی چپ 
___________________


Ghazal by Rashid Fazli
 

Thursday, February 23, 2012

غزل : بے حس گھروں کی چاہتیں دیوار و در سے ہیں

غزل

بے حس گھروں کی چاہتیں دیوار و در سے ہیں
ہم آج اپنے گھر میں پڑے رہگزر سے ہیں

وہ لوگ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی
جو لوگ زندگی میں بہت مختصر سے ہیں

آنکھوں میں زندگی کی کثافت ہے، دھند ہے
جو دیکھتے ہیں آج بھی اہل ِ نظر سے ہیں

گہری جڑوں کو لے کے جو ہم ریگ میں اگے
اب آندھیوں کے بیچ کھڑے اک شجر سے ہیں

لہریں سمندروں کی یہ کہتی ہیں دوستو!
ہم اپنی قوت آج بھی اپنے سفر سے ہیں
____________


Rashid Fazli

Saturday, February 18, 2012

غزل : دنیا کی اس روش سے بڑا ڈر لگا مجھے

غزل

دنیا کی اس روش سے بڑا ڈر لگا مجھے
ہر شخص اپنے آپ سے باہر لگا مجھے

ساحل سے دیکھتا تھا سمندر کی یورشیں
اک ایسا شخص جو کہ سمندر لگا مجھے

کٹنے کو کٹ گئی ہے اسی میں تمام عمر
رہتا ہوں جس مکان میں کب گھر لگا مجھے

آنکھیں کھلیں تو دیکھا کہ اک خار زار ہے
غفلت کی نیند میں وہی بستر لگا مجھے

یہ جانتا ہوں مجھ کو وہ پہچانتا نہ تھا
مارا کسی کو اور تھا پتھر لگا مجھے

کیسی لگی تھی اس کو بھی میرے لہو کی چاٹ
پھینکا کسی پہ اور تھا خنجر لگا مجھے

توذات کے اندھیرے کنویں سے نکال دے
اے فکرِ خودشناس ذرا پَر لگا مجھے
_____________
 
Rashid Fazli
 
 

Monday, February 13, 2012

غزل : اُس کے آگے ہم غریبوں کی صدا کچھ بھی نہیں

غزل

اُس کے آگے ہم غریبوں کی صدا کچھ بھی نہیں
حال دل میں نے کہا اس نے سنا کچھ بھی نہیں

جسم میں اب زندگی کی ایک چنگاری نہیں
راکھ کے اس ڈھیر میں باقی بچا کچھ بھی نہیں

اپنی سانسوں کی حفاظت کر رہے ہیں لوگ سب
زندگی میں زندگی جیسا مزا کچھ بھی نہیں

مجرموں کے ہاتھ جب سے لگ گئی ہے منصفی!
چڑھ گئے سولی پہ وہ جن کی خطا کچھ بھی نہیں

نقشِ فریادی کی صورت سامنے اس کے گئے
فیصلہ اپنا مگر اس نے کیا کچھ بھی نہیں

ایک خوشبو ہے کہ جادو ہے خیالوں کا مرے،
ڈھونڈتا ہوں میں اسے جس کا پتا کچھ بھی نہیں

ہے تعلق ہی کہاں ان سے جو کچھ اپنی کہوں
کہہ رہے ہیں جو مجھے اچھا بُرا کچھ بھی نہیں
_______________

Rashid Fazli

Tuesday, February 7, 2012

غزل : کیسی حسرت تھی کہ اس کی دوستداری دیکھتے

غزل

کیسی حسرت تھی کہ اس کی دوستداری دیکھتے
اور اس کے بعد اپنا زخمِ کاری دیکھتے

کیا نہ تھا آنکھوں میں اپنی، اف مگر یہ تشنگی
کٹ گئی آخر اسے بھی عمر ساری دیکھتے

محو حیرت تھے ہم اتنے اس فریبِ زیست میں
اتنی فرصت کب ملی کہ رسمِ یاری دیکھتے

اس قدر شہرت ملی تھی کب مجھے پہلے کبھی
دیکھنا تھا گر تمہیں تو میری خواری دیکھتے

مثل موسیٰ کاش ملتی مجھ کو بھی اک اذن دید
خاک ہو جاتے مگر صورت تمہاری دیکھتے

اُف یہ عمرِ مختصر، ملتی ہمیں جو عمرِ خضر
ہم تیرے عہدِ وفا کی پائیداری دیکھتے!!

آئینے کے سامنے تھی اپنے چہرے پر نظر
رہ گئے ہم تو مگر صورت تمہاری دیکھتے
___________
Rashid Fazli

Saturday, February 4, 2012

غزل : بساطِ دل کا پیادہ سہی اٹھا نہ مجھے

غزل

بساطِ دل کا پیادہ سہی اٹھا نہ مجھے
کہ شہ پڑیگی تجھے زندگی ہٹانہ مجھے

جو اپنے کوئے ملامت سے لے کے آئے ہو
بنا رہے ہو اُسی سنگ کا نشانہ مجھے

میں چوم لیتا ہوں اب نکہتِ گلاب کو بھی
کہ مل گیا ہے تری سانس کا بہانہ مجھے

درون ِ دل ترے نازک سا ایک جذبہ ہے
سنبھال اُس کو ذرا، ٹھیس تو لگا نہ مجھے

متاع ِ درد جو تیری ہے اُس کو خاک نہ کر
میں جل رہا ہوں تیری آگ میں بجھا نہ مجھے

میں جی چکا ہوں تجھے عمر بھر کا داغ لیے
کہ سبز باغ نیا پھر سے تُو دکھا نہ مجھے

میں بن گیا ہوں ہر اک دور کی نئی آواز
کہ یاد رکھے کوئی دم نیا زمانہ مجھے

میں قطرہ قطرہ ترے دل کا خون ہوں شاید
میں گر پڑوں گا تری آنکھ سے رُلانہ مجھے

میں وہ نمو ہوں کہ دبنے سے پھر ابھرتی ہے
فلک کو چھو نہ لوں اٹھ کر کہیں دبانہ مجھے

تڑپ رہا ہوں ابھی تک جو میں نے جھیلا ہے
نہ سن سکوں گا تری داستاں سنانہ مجھے

جو اس کے درد سے ہٹ کر کہیں گزرتی ہے
اس ایک راہ پہ راشدٌ نہ کر روانہ مجھے
__________
Rashid Fazli

Thursday, February 2, 2012

غزل : نظر کے آگے بچھا دو چاہے سمندروں سا، یہ خواب اپنا

غزل

نظر کے آگے بچھا دو چاہے سمندروں سا، یہ خواب اپنا
جو دیکھنا ہے وہ دیکھ لوگے، ہے زندگی کا عذاب اپنا

ہر ایک آہٹ پہ جوۓ شیریں کی، پیاس ٹپکے گی بوند بن کر
یہ کام آتا ہے زندگی بھر بچا کے رکھنا سراب اپنا

کسی کی خواہش کسی کے دل میں کسی کی خوشبو کسی بدن میں
ہر ایک نقش ِ دوئی کا حامل، نہیں ہے رکھتا جواب اپنا

بچا کے رکھو نہ جسم و جاں تم کہ خاک ہونا بھی طے شدہ ہے
لہو کی بوندوں سے مانگ لے گی، ہے حسرتوں کا حساب اپنا

نگاہِ شب میں چھپی ہوئی ہے وہ کہکشاں کی حسین دیوی
تمہارے خوابوں میں آ گئی تو اتار دے گی نقاب اپنا

دیار ِ مغرب کے رہنے والوں میں ایک رسم ِ وفا ہے ایسی
کہ ساتھ بیٹھو مگر خریدو شراب اپنی کباب اپنا

سمجھ لو صد کام کھل چکے ہیں نہنگِ مکرو فریب کے اب
گہر سے موج ِ رواں جو پوچھے کہاں لٹایا ہے آب اپنا
______________
Rashid Fazli