جو حوصلہ
نہیں رہا تو ہجرتوں سے ڈر گیا
قدم قدم جو
رک گیا وہ راستے میں مر گیا
عجیب آدمی
تھا وہ تمام عمر کاٹ کر
مسافتوں کے
درد سے چُھٹا تو اپنے گھر گیا
فقط حنا کے
رنگ کا خیال دل میں آنا تھا
وہ آئینے کے
سامنے کچھ اور بھی نکھر گیا
عروج کی یہ
آگہی کسے کہاں لبھا گئی
پہاڑ پر جو
شخص تھا زمین پر اتر گیا
جو اپنے جسم
و جان کو خیال کو سمیٹ کر
ہوا کے ساتھ
لے اڑا تو خاک سا بکھر گیا
ہر ایک ذات
کے لئے مسافرت تھی آئینہ!
جو آنکھ سے
نظر گئی تو پاؤں سے سفر گیا
عجب ہے دل کا
کھیل بھی جو چپ رہو تو کچھ نہیں
زبان کھول دی
اگر تو اس کا سب اثر گیا
_____________
Ghazal by Rashid Fazli |