ان آنکھوں
میں مری آکر کوئی ایسی نظر رکھ دے
جو صحرا میں
مرے آگے کہیں دیوار و در رکھ دے
خدایا تشنگی
دے کر ہوس کو تو بڑھا اتنا....
کہ اپنے ان
سرابوں پر سمندر آکے سر رکھ دے
تمنا کی حسیں
تتلی ابھی خوابوں میں اُڑتی ہے
کبھی ان
جاگتی آنکھوں میں رنگیں بال و پر رکھ دے
بہت پھیلا
ہوا صحرا ہے میری نارسائی کا.....
مرے ان پاؤں
میں پھر سے نیا کوئی سفر رکھ دے
نہ لفظوں
میں، نہ پیکر میں، نہ رنگوں میں ہے اب جادو
اُسی کو بس
حسیں سمجھو جو دل میں اک شرر رکھ دے
اُسی کو
موڑتے، طوفان کا رخ ہم نے دیکھا ہے!
کبھی سیلاب
کے آگے جو اپنا کچا گھر رکھ دے
ترے بدلے نہ
لوں کچھ بھی کہ سودا تیرا نا ممکن
مرے قدموں پہ چاہے وہ یہ سارا بحر و بر رکھ دے
__________
Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment