Saturday, March 10, 2012

غزل : تنہا میرا پیکر ہے

تنہا میرا پیکر ہے
خوف کا پیچھے لشکر ہے

اپنا سایہ جلتا ہے
دھوپ ہماری چادر ہے

دیواروں کی قید نہیں
اپنا گھر تو باہر ہے

کون جیالا جو یہ کہے
دوسرا مجھ سے بہتر ہے

آہٹ دل میں کیسی ہے
کوئی ابھی تک اندر ہے

دکھ کے لمحے یوں سمجھو
سوئی سوئی نشتر ہے

جس کا کوئی قرض نہیں
وہ بھی مرے در پر ہے

اپنے آپ کو سمجھالو
درد تمہارے اندر ہے

زیست بشر کی راشدٌ کیا
کانٹوں کا اک بستر ہے
_____________________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

No comments:

Post a Comment