پاس سب کے ہے
انا کا ڈر کھلا
ہاتھ میں
رکھتے ہیں سب پتھر کھلا..!
ہر طرف ہے
خود فریبی کا سماں
جو کُھلا وہ
ذات کے باہر کھلا
اس خلوص ِ دل
کی قیمت دیکھئے
پتھروں کی
بارشیں ہیں، سر کھلا
لوَٹتے رہتے
ہیں لشکر درد کے
دل کے اندر
ہے مرے اک در کھلا
رہزنوں کا
کوئی خدشہ نہ رہا
چھوڑ آیا جب
میں اپنا گھر کھلا
روز ملتا تھا
مگر کھُلتا نہ تھا....!
فون پر مجھ
سے وہ کچھ بہتر کھلا
بند کرکے
آنکھیں جب سوچا تجھے
تب تیری رعنائی کا پیکر کھلا
________________
Ghazal by Rashid Fazli |
No comments:
Post a Comment