Thursday, March 15, 2012

غزل : اُجلی، کالی، پیلی، سرخ نہ جانے کیسی کیسی دھوپ

اُجلی، کالی، پیلی، سرخ نہ جانے کیسی کیسی دھوپ
اپنا کام ہے جلتے رہنا جیسے رنگ برنگی دھوپ

جانے کیسے کیسے کھیل ہیں تیری یاد کے اے ہمدم
بادل بارش صبح کا منظر اس پر پھیلی پھیلی دھوپ

اس منظر کو لے کر اب تک صحرا صحرا پھرتا ہوں
بال سنہرے بکھرے ہوئے تھے مونڈھے پر تھی بیٹھی دھوپ

شرط، وفا میں گرمی کی ہے موج ِ حرارت چلنے دے
برف سا دل بھی پگھلا دیگی تیرے آنچل جیسی دھوپ

صبح کی شوخی دن کی شرارت میں تھی الجھی شام تلک
شام ہوئی تو اچھی لگی یہ خود میں سمٹی سمٹی دھوپ

آس کی ننھی کلیوں کے کچھ خواب سنہرے اب رکھ دو
جن آنکھوں میں پھلی ہوئی ہے حسرت جیسی خالی دھوپ

سناٹے کی گہری تپش سے جسم یہ سارا جلتا ہے
دل کے اندر آ کر بیٹھی ویرانی کی ایسی دھوپ

یوں تو اپنے اکیلے پن میں سناٹوں کا خوف نہیں
دل کو پھر کیوں راس نہ آئی وحشت جیسی پھیلی دھوپ

بادل، سورج جب بھی کھیلیں آنکھ مچولی ساون میں
دھان کے کھیتوں پر لہراۓ تب تب جلتی بجھتی دھوپ
________________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

No comments:

Post a Comment