موسم ِ گل
میں کیا روانی ہے
تیز بہتا ہوا
یہ پانی ہے
جس میں کردار
سارے مردہ ہیں
تیری میری
وہی کہانی ہے
خود کو دیکھو
یا گل پہ شبنم کو!
بے ثباتی کی
سب نشانی ہے
جو سمجھتا ہے
دل کی باتوں کو
وہ بھی کتنا
بڑا گیانی ہے
زرد پتا شجر
سے گرتا ہے
جان یوں بھی
تو سب کی جانی ہے
آرزوؤں کا
جال پھیلا ہے
ہر جہت جس کی
لامکانی ہے
بے سبب ہو کہ
تیری چاہت میں
جان راشدٌ کو بھی گنوانی ہے
__________
No comments:
Post a Comment