Friday, March 23, 2012

غزل : جن راہوں پر میں چلتا ہوں تم نہ چلو تو بہتر ہے

جن راہوں پر میں چلتا ہوں تم نہ چلو تو بہتر ہے
حد نظر تک تنہائی ہے جان سکو تو بہتر ہے

ایک اشارے پر اس کے جب ٹوٹ ہی جانا ہے تم کو
آنکھ کا آنسو بن جانے پر پھر نہ رُکو تو بہتر ہے

درد کی ان راہوں پر شاید ہم دونوں ہی تنہا ہیں
دنیاداری بھی اک شے ہے ساتھ چلو تو بہتر ہے

اپنی چھت اور دیواروں سے باتیں کرتے تھک جاؤ گے
اپنے سونے پن سے باہر جاکے بسو تو بہتر ہے

جانے تم کو کس حالت میں کن موڑوں پر چھوڑ چلے
اپنے اپنے ساۓ سے بھی ڈرتے رہو تو بہتر ہے

دل کو چھونا لفظوں سے بس فن ِ غزل ہے راشدٌ کا
اپنے جذبے دھیان میں لا کر اُس کو سنو تو بہتر ہے
__________________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Saturday, March 17, 2012

غزل : ان آنکھوں میں مری آکر کوئی ایسی نظر رکھ دے

ان آنکھوں میں مری آکر کوئی ایسی نظر رکھ دے
جو صحرا میں مرے آگے کہیں دیوار و در رکھ دے

خدایا تشنگی دے کر ہوس کو تو بڑھا اتنا....
کہ اپنے ان سرابوں پر سمندر آکے سر رکھ دے

تمنا کی حسیں تتلی ابھی خوابوں میں اُڑتی ہے
کبھی ان جاگتی آنکھوں میں رنگیں بال و پر رکھ دے

بہت پھیلا ہوا صحرا ہے میری نارسائی کا.....
مرے ان پاؤں میں پھر سے نیا کوئی سفر رکھ دے

نہ لفظوں میں، نہ پیکر میں، نہ رنگوں میں ہے اب جادو
اُسی کو بس حسیں سمجھو جو دل میں اک شرر رکھ دے

اُسی کو موڑتے، طوفان کا رخ ہم نے دیکھا ہے!
کبھی سیلاب کے آگے جو اپنا کچا گھر رکھ دے

ترے بدلے نہ لوں کچھ بھی کہ سودا تیرا نا ممکن
مرے قدموں پہ چاہے وہ یہ سارا بحر و بر رکھ دے
 __________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Thursday, March 15, 2012

غزل : اُجلی، کالی، پیلی، سرخ نہ جانے کیسی کیسی دھوپ

اُجلی، کالی، پیلی، سرخ نہ جانے کیسی کیسی دھوپ
اپنا کام ہے جلتے رہنا جیسے رنگ برنگی دھوپ

جانے کیسے کیسے کھیل ہیں تیری یاد کے اے ہمدم
بادل بارش صبح کا منظر اس پر پھیلی پھیلی دھوپ

اس منظر کو لے کر اب تک صحرا صحرا پھرتا ہوں
بال سنہرے بکھرے ہوئے تھے مونڈھے پر تھی بیٹھی دھوپ

شرط، وفا میں گرمی کی ہے موج ِ حرارت چلنے دے
برف سا دل بھی پگھلا دیگی تیرے آنچل جیسی دھوپ

صبح کی شوخی دن کی شرارت میں تھی الجھی شام تلک
شام ہوئی تو اچھی لگی یہ خود میں سمٹی سمٹی دھوپ

آس کی ننھی کلیوں کے کچھ خواب سنہرے اب رکھ دو
جن آنکھوں میں پھلی ہوئی ہے حسرت جیسی خالی دھوپ

سناٹے کی گہری تپش سے جسم یہ سارا جلتا ہے
دل کے اندر آ کر بیٹھی ویرانی کی ایسی دھوپ

یوں تو اپنے اکیلے پن میں سناٹوں کا خوف نہیں
دل کو پھر کیوں راس نہ آئی وحشت جیسی پھیلی دھوپ

بادل، سورج جب بھی کھیلیں آنکھ مچولی ساون میں
دھان کے کھیتوں پر لہراۓ تب تب جلتی بجھتی دھوپ
________________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Saturday, March 10, 2012

غزل : تنہا میرا پیکر ہے

تنہا میرا پیکر ہے
خوف کا پیچھے لشکر ہے

اپنا سایہ جلتا ہے
دھوپ ہماری چادر ہے

دیواروں کی قید نہیں
اپنا گھر تو باہر ہے

کون جیالا جو یہ کہے
دوسرا مجھ سے بہتر ہے

آہٹ دل میں کیسی ہے
کوئی ابھی تک اندر ہے

دکھ کے لمحے یوں سمجھو
سوئی سوئی نشتر ہے

جس کا کوئی قرض نہیں
وہ بھی مرے در پر ہے

اپنے آپ کو سمجھالو
درد تمہارے اندر ہے

زیست بشر کی راشدٌ کیا
کانٹوں کا اک بستر ہے
_____________________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Friday, March 9, 2012

غزل : پتے گرے شجر سے کہ میری صدا گری

پتے گرے شجر سے کہ میری صدا گری
رشتوں میں فرق ڈال کر کیسی ہوا گری

ان آنگنوں میں پھول کے موسم گرے نہیں
اپنی نظر سے خود بھی یہ بادِ صبا گری

تازیست اپنے دل میں مسافت کا درد ہے
کیوں راستے میں میرے کسی کی ادا گری

زخم ہنر کا چاند تھا میری جبین پر
کیا مندمل وہ ہوتا کہ جس کی دوا گری

چاہا تھا تجھ کو اپنی دعاؤں سے جیت لوں
ہاتھوں سے میرے آج وہ ساری دعا گری

آنکھوں میں اپنی صبح ِ فروزاں کا خواب تھا
جب آسماں سے مجھ پہ یہ کالی گھٹا گری

تالابِ درد میں مرے کنکر نہ ڈال پھر
کن مشکلوں سے آج یہ موج ِ ہوا گری

کب تک رہوگے خواب میں سورج کو دیکھتے
راشدٌ اٹھو بھی دیکھ لو شب کی ردا گری
__________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Thursday, March 8, 2012

غزل : موسم گل میں کیا روانی ہے

موسم ِ گل میں کیا روانی ہے
تیز بہتا ہوا یہ پانی ہے

جس میں کردار سارے مردہ ہیں
تیری میری وہی کہانی ہے

خود کو دیکھو یا گل پہ شبنم کو!
بے ثباتی کی سب نشانی ہے

جو سمجھتا ہے دل کی باتوں کو
وہ بھی کتنا بڑا گیانی ہے

زرد پتا شجر سے گرتا ہے
جان یوں بھی تو سب کی جانی ہے

آرزوؤں کا جال پھیلا ہے
ہر جہت جس کی لامکانی ہے

بے سبب ہو کہ تیری چاہت میں
جان راشدٌ کو بھی گنوانی ہے
__________

Rashid Fazli Poetry
Ghazal by Rashid Fazli


Wednesday, March 7, 2012

غزل : پاس سب کے ہے انا کا ڈر کھلا

پاس سب کے ہے انا کا ڈر کھلا
ہاتھ میں رکھتے ہیں سب پتھر کھلا..!

ہر طرف ہے خود فریبی کا سماں
جو کُھلا وہ ذات کے باہر کھلا

اس خلوص ِ دل کی قیمت دیکھئے
پتھروں کی بارشیں ہیں، سر کھلا

لوَٹتے رہتے ہیں لشکر درد کے
دل کے اندر ہے مرے اک در کھلا

رہزنوں کا کوئی خدشہ نہ رہا
چھوڑ آیا جب میں اپنا گھر کھلا

روز ملتا تھا مگر کھُلتا نہ تھا....!
فون پر مجھ سے وہ کچھ بہتر کھلا

بند کرکے آنکھیں جب سوچا تجھے
تب تیری رعنائی کا پیکر کھلا
________________
Ghazal by Rashid Fazli

Saturday, March 3, 2012

غزل : آنکھوں میں خواب ہوں تو بکھر جانا چاہیے

آنکھوں میں خواب ہوں تو بکھر جانا چاہیے
سیل ِ بلا یہ سر سے گزر جانا چاہیے

اس زندگی کے دردِ مسافت سے گر کبھی،
فرصت ملے تو اپنے ہی گھر جانا چاہیے

پھیلی ہوئی بہت ہے ابھی بے کسی کی دھوپ
سایہ کہیں ملے تو ٹھہر جانا چاہیے

ہو روبرو جو آئینہ، چہرا تمہارا ہو!
ہے مصلحت اسی میں کہ ڈر جانا چاہیے

یہ اور بات ہے کہ حقیقت کچھ اور ہے
چہروں کو آئینوں میں نکھر جانا چاہیے

سارے کنارے اس کے تہہ آب آ چکے
دریا کو اپنی تہہ میں اتر جانا چاہیے

ہر رات جھیلتا ہوں دکھوں کا عذاب میں
یہ گردش ِ فریبِ سحر جانا چاہیے

ہر چیز کو گزرتے ہوئے دیکھتا ہوں میں
دن تیرے ہجر کا بھی گزر جانا چاہیے

وہ شخص جس کو تیرے سوا کچھ نہیں عزیز
اس پر بھی تیری ایک نظر جانا چاہیے

کچھ سوچ کر ہی اس نے مجھے دی ہیں ہجرتیں
راشدٌ کے ساتھ زادِ سفر جانا چاہیے
___________
 
Ghazal by Rashid Fazli
 

Friday, March 2, 2012

غزل : تم جو آتے تو سحر بھی لاتے

تم جو آتے تو سحر بھی لاتے
میرے ہونے کی خبر بھی لاتے

اتنی دیواریں کھڑی کیں مجھ پر
ایسا کرتے کبھی در بھی لاتے

دیکھتے کیا وہ سرابوں کے سوا
ساتھ اپنے جو نظر بھی لاتے

اپنی مرضی سے جو آئے ہوتے
اپنے جیسے کا ہُنر بھی لاتے

جن کو سینچا تھا لہو سے اپنے
کاش پودے وہ ثمر بھی لاتے

جو سمندر کی تہوں تک جاتے
اپنے ہاتھوں میں گہر بھی لاتے
__________

Ghazal by Dr. Rashid Fazli