Thursday, May 31, 2012

نظم : آج کا المیہ

عجیب بے حس سی قربتیں ہیں
عجیب بے حس سے فاصلے ہیں
نہ آئینوں میں ہے عکس واضح
نہ زندگی میں ہے زندگی کا سراغ باقی
یہ سارے چہرے سپاٹ دھرتی سے اُگ رہے ہیں
نہ مر رہے ہیں، نہ جی رہے ہیں
سپاٹ چہروں پہ پھیلی آنکھوں میں
حیرتوں کا گزر نہیں ہے
گداز باتوں کا سارا رشتہ
زبان و الفاظ کی حدوں سے گزر چکا ہے
نگاہ و قلب و جگر کی باتیں
جمال و حسن و نظر کی راہیں بھی
زندگی کی حسین راہوں سے منحرف ہیں
یہ کیسا وقت ہم پر آ پڑا ہے
کہ قربتوں میں ہے قربتوں کی تلاش جاری
کہ فاصلوں کی حدوں سے آگے بھی فاصلے ہیں
اِدھر کو دیکھو، اُدھر کو دیکھو
جدھر کو دیکھو وہیں پہ دیوار کا سماں ہے
عجیب بے حس سی قربتیں ہیں
عجیب بے حس سے فاصلے ہیں
یہاں تو دیوار کا سماں ہے
______________
 
Rashid Fazli Poetry
 

Tuesday, May 29, 2012

نظم : کینسر

میں چپ ہوں کیوں، کچھ تم نے جانا

غم اس کا نہیں کہ ہاتھ کٹے
غم اس کا نہیں کہ لب ہیں سلے
غم اس کا نہیں کہ پیر تلے
دھرتی بھی اپنی سرکنے لگے

سوچو تو ذرا میں زندہ ہوں
میں زندہ ہوں غم اس کا ہے
یہ آکٹوپس جو اندر ہے
ہے جان سے میری لپٹا ہوا
اب شریانوں میں پھیل گیا

رگ رگ میں تشبخ کا جھٹکا
اندر ہی اندر دنیا کا،
ہر پاؤں کچلتا جاتا ہے
احساس جگائے رکھتا ہے
نیندوں کو بھگاۓ رکھتا ہے

میں مرتا نہیں تو جیتا ہوں
کیا ایسا جینا جینا ہے؟
کیا ایسا جینا جینا ہے؟
میں چپ ہوں کیوں، کیا تم نے جانا؟
_____________________

Cancer A Poem by Rashid Fazli
 

Monday, May 21, 2012

نظم : بچے کی زباں سے

"ابھی میرا بچہ"
جو گڑیوں کے کھیلوں میں مشغول تھا
یکایک یہ کہنے لگا کہ
مداری ہوں میں،
ایسے کرتب دکھانے لگا ہوں
کہ دنیا کے سارے ہی ہم عمر بچے
مجھے اپنا "پاپا" بتانے لگیں گے! 
____________

A Nazm : Rashid Fazli Poetry

Thursday, May 17, 2012

غزل : جب ہوا اس کو چھو کے آتی ہے

جب ہوا اس کو چھو کے آتی ہے
مجھ سے اپنا بدن چراتی ہے

اپنی ہجرت کی ایک تنہا شام
کتنے موسم ہمیں دکھاتی ہے

آنکھیں اپنی بچھا دو آہٹ پر
روشنی کب کسے بلاتی ہے

جب بھی سورج نظر میں چڑھتا ہے
رات آنکھوں میں ٹوٹ جاتی ہے

جتنے منظر ہیں میری آنکھوں میں
ہر طرف اتنی بے ثباتی ہے

بھولتا جا رہا ہوں سانسوں کو
زندگی یوں ہی جھلملاتی ہے
_________
 
Rashid Fazli Poetry
 

Tuesday, May 15, 2012

غزل : ہیں جلتے مناظر ہوا سرد ہے

ہیں جلتے مناظر ہوا سرد ہے
ان آنکھوں کا جلتا دیا سرد ہے

لحافوں کی گرمی سے کیا جاۓ گی
یہاں اندرونی فضا سرد ہے

یہی سوچ کر ہم نہیں مانگتے!
ہمارا یہ دست دعا سرد ہے

محبت کے وعدوں کا جلتا دیا
یہ چپکے سے کس نے کہا سرد ہے

جسے آج تک چھو کے دیکھا نہیں
یہ کیسے کہو گے خدا سرد ہے

نہ اٹھے گا جوش ِ روانی کبھی
لہو کا یہ دریا بڑا سرد ہے

نگاہیں بھی سبزہ اگانے لگیں
خوشی کی برستی گھٹا سرد ہے

کوئی زمزمہ ہو، کوئی بزم ہو!
یہ راشدٌ ہمیشہ رہا سرد ہے
____________
 
Rashid Fazli Poetry
 

Monday, May 14, 2012

غزل : اشک فرقت ہیں بچالو ہم کو

اشک فرقت ہیں بچالو ہم کو
یوں نہ آنکھوں سے نکالو ہم کو

تپتے صحرا کے کھلے پھول ہیں ہم
لاکے کمرے میں سجالو ہم کو

ہمیں فرقت میں ہیں یادوں کے دئیے
شام ہوتے ہی جلالو ہم کو

صحرا صحرا، ہیں تمھاری آنکھیں!
ہم کہ دریا ہیں بہالو ہم کو

چاند تاروں کے بسانے والو!
اجڑی بستی ہیں بسالو ہم کو

اپنے ٹوٹے ہوئے خوابوں کی طرح
اپنی پلکوں پہ چھپالو ہم کو
_________
 
Rashid Fazli Poetry
 
 

Saturday, May 12, 2012

غزل : یاد نہیں خیال بھی کس کے خیال میں ہو گم

یاد نہیں خیال بھی کس کے خیال میں ہو گم
سارے جہاں کو چھوڑ کر اپنے وصال میں ہو گم

عرصۂِ شب تو چن لیا دشتِ سفر دراز میں
اب تو کرو یہی دعا پاؤں زوال میں ہو گم

آنکھوں کو بند کر لیا ایسے تو تم کبھی نہ تھے
آئینے پائمال ہیں کس کے جمال میں ہو گم

ساری رفاقتیں تجیں میں نے تمہارے نام پر
ایک کہ تم ابھی تلک شہر ِ ملال میں ہو گم

راشدٌ ہر ایک آرزو دام ِ فریبِ زیست ہے
اصل ِ حیات چھوڑ کر حسن ِ خیال میں ہو گم
______________

Rashid Fazli Poetry
 

Tuesday, May 1, 2012

غزل : سنہرے پروں کا پرندہ اُڑا

سنہرے پروں کا پرندہ اُڑا
کسی پہ بھی جادو نہ اس کا چلا

نصیب اپنے ہاتھوں سے جس نے لکھا
وہ روشن خیالی سے کیوں مر گیا

جو تتلی کے رنگوں سے مسحور تھا
وہی وقت کی ڈور پکڑے رہا

کسے اپنے اوپر یقین اتنا تھا
یہ کون اپنے ہاتھوں کھلونا بنا

جہاں روشنی کا مقدر نہ تھا
جلایا وہاں پہ یہ کس نے دیا

ابھی تو بکھرنے میں کچھ دیر تھی
کسے لے کے چل دی یہ چلتی ہوا

دھنک آرزوؤں کا سنگم رہی
مگر دل تھا اپنا بُجھا کا بُجھا
____________
 
Rashid Fazli Poetry