ایک لمحہ نہیں بلکہ صدیاں
ہوئیں
سرمئی شام کی سلوٹوں پر کہیں
ایک بوسے کی خواہش پھسلنے لگی
آسماں پر شفق در شفق خواب کی
کھیتیاں…..
یوں بکھرتی گئیں
ایک لمحے میں آنکھوں کو بدمست
کرنے لگیں
ہم بھی تنہا کھڑے تھے کہ تو آ
گئی
اک کنواری سی مٹی کی خوشبو اُڑی
تیری سانسوں کے سنگیت کا زیر و
بم
میری تنہائی کے نرم و نازک چمن
میں لرزنے لگا
تشنہ خواہش سے بھیگی ہوئی
کونپلیں
سر اٹھانے لگیں،
اپنی آنکھوں میں سرگوشیوں کی
ہوا
دور تک خواب کی فصل کو
لہر در لہر لہلہانے لگی
جسم کی کھیتیاں سرسرانے لگیں
سرمئی شام کی گود میں کتنے
شبنم کے موتی چمکنے لگے
پہلی خواہش سے ابھری ہوئی
خواہشیں
کتنی صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہیں
مگر
ایک لمحہ ہمیں پھر
کبھی نہ
ملا،
ہم ادھوری سی خواہش کی پہچان ہیں
______________
Rashid Fazli Poetry |
No comments:
Post a Comment