Saturday, June 30, 2012

نظم : سمندر

راستوں پہ رونق ہے
سامنے سمندر ہے
وقت کے اندھیروں میں،
سب کو ڈوب جانا ہے! 

Rashid Fazli Poetry

Tuesday, June 26, 2012

نظم : چار مصرعوں کی نظم

 دھوپ اپنی سواری کو آواز دے
رات اپنی کہانی کو اک ساز دے
روشنی ہر پرندے کو پرواز دے
                        اور جنگل ہمارے لئے چھوڑ دے
______________

Rashid Fazli Poetry

Monday, June 25, 2012

نظم : اپنی اس دنیا کی نظم

لہو کو جلانا اگر اک عمل ہے
کتابوں کو پڑھنا انہیں بھول جانا
ہمارا مقدر اگر بن چکا ہے
خیالوں کو شو کیس میں بند کرنا
یا اپنے ملابس کی مانندان کو
تہوں میں جمانا، سلیقے سے رکھنا
اگر زندگی ہے
تو ہم جی رہے ہیں
یہ اپنا مقدر بھی کتنا کھرا ہے
کہ اب تک،
کسی ملک کی اک کرنسی کے مانند
ضرب اور تقسیم کے ہندسوں میں
یہاں سے وہاں دوڑتا پھر رہا ہے
_____________

Rashid Fazli Poetry

Thursday, June 21, 2012

نظم : سانسوں کا المیہ

ہاں مجھ پہ فقط، راتوں کا کرم ہے یارو
اب خواب کہاں، خوابوں کا بھرم ہے یارو
جینے کی تمنا میں سانسیں مری چلتی ہیں
سانسوں کا چلن ہے یارو
یا اپنی تھکن ہے یارو
                        کچھ دور ابھی جاؤں گا،
                        کچھ دور ابھی جاؤں گا،
پاؤں کو تھکن پہ رکھ کر
سینے کو جلن پہ رکھ کر
کانٹوں کو چبھن پہ رکھ کر
                        کچھ دور ابھی جاؤں گا،
ساۓ کو شجر پہ رکھ کر
دھوپوں کو حجر پہ رکھ کر
آنکھوں کو سفر پہ رکھ کر
                        کچھ دور ابھی جاؤں گا،
پھر رات میں کھو جاؤں گا
پھر رات میں کھو جاؤں گا
______________
 
Rashid Fazli Poetry
 

Wednesday, June 20, 2012

نظم : روز کا قصہ

نیم عریاں لڑکیاں
جنگلوں کی کٹیوں سے
لکڑیوں کا گٹھ لے کر
شہر کی فصیلوں تک
جب کبھی بھی آتی ہیں
لکڑیوں کے بدلے میں
درد لے کے جاتی ہیں
                        روز کا یہ قصہ ہے!
_________________

Rashid Fazli Poetry
 

Saturday, June 16, 2012

نظم : لفظوں کا سراب

مجھے اپنی آواز کے رس میں گھولو
کہ میں ایک بے جان لفظوں کا انبار ہوں
سیاہی مقدر ہے میرا
کہیں بھی لکھو،
خوشی، غم، اداسی، محبت یا نفرت کے جذبے،
مجھے چُن رہے ہیں
مجھے چکھ رہے ہیں
مجھے اپنی آواز کے رَس میں گھولو
کہ میں ایک تخلیق بن کر
کہیں کھو گیا ہوں.....!
میں شاعر کا جذبہ تھا پہلے
مگر اب تو بے جان لفظوں کا انبار ہوں
مجھے گیت جس نے بنایا
وہ خود بھی کہیں کھو چکا ہے
سیاہی بنا کر مجھے اس نے اپنی کتابوں کو سونپا
کتابوں کے اندر میں دبتا چلا جا رہا ہوں
مجھے اپنے آواز کے رس میں گھولو
کہ میں، اپنے مرنے سے پہلے
نئی زندگی دیکھنا چاہتا ہوں!!!
_________________

Rashid Fazli Poetry

Tuesday, June 12, 2012

نظم : نیند

میں کہ اپنے سفر کی تھکن کا
وہی پاؤں ہوں
جس پہ ہستی مری،
اپنی سانسوں کی لاشیں اٹھاۓ ہوئے
اک نیا سا سفر
پھر سے ایجاد کرنے میں مصروف ہے
آج آنکھیں بھی خوابوں پر اک بوجھ ہیں
پاؤں آنکھوں پہ رکھ کر، سفر چھوڑ کر
نیند مجھ کو سلانے چلی آئی ہے
______________
Rashid Fazli Poetry
Neend : A Poem by Rashid Fazli
background used in image is taken from the works of Lisa.

Saturday, June 9, 2012

نظم : نادیدہ قرض

وہ سانس جو میں نے کبھی
زندگی کو بڑھانے کی خاطر
اپنے سینے میں اب تک اتاری نہیں
روشنی جو کہ آنکھوں نے دیکھی نہیں
خواب،
جو ابھی تک خیالوں کی دہلیز پر
تمنا سے میری الجھتے رہے ہیں
مجھے ڈھونڈتے ہیں
اور نادیدہ نعمت کا مجھ سے
صلا مانگتے ہیں!! 
____________

Rashid Fazli Poetry
 

Friday, June 8, 2012

نظم : درد کا احساس

درد خوابوں سے جگاتا ہے مجھے
مجھ میں احساس ابھی زندہ ہے
جسم اک برف کا تودہ ہی سہی....
اپنی شریان میں خون جم بھی چکا

آنکھیں دیوار کا منظرنامہ
موت کے کھیل کی تصویر جہاں
کوئی آواز بھی اب کان کو چھوتی ہی نہیں
میرے کمرے کی گھڑی
کتنی بے جان سہی
اپنی ٹک ٹک میں تو مصروف رہی
یوں تو زندہ ہیں سبھی لوگ مگر
کون ہیں وہ جنہیں درد جگا دیتا ہے
لوگ جیتے ہیں مگر
دردِ احساس سلا دیتے ہیں
مجھ میں احساس ابھی زندہ ہے
درد تیرا ہے جو پائندہ ہے
 __________________

Click on image to get a large view  ~:~
Dard, the Pain : A Poem by Rashid Fazli

Monday, June 4, 2012

نظم : ادھوری خواہش

ایک لمحہ نہیں بلکہ صدیاں ہوئیں
سرمئی شام کی سلوٹوں پر کہیں
ایک بوسے کی خواہش پھسلنے لگی
آسماں پر شفق در شفق خواب کی کھیتیاں…..
یوں بکھرتی گئیں
ایک لمحے میں آنکھوں کو بدمست کرنے لگیں
ہم بھی تنہا کھڑے تھے کہ تو آ گئی
اک کنواری سی مٹی کی خوشبو اُڑی
تیری سانسوں کے سنگیت کا زیر و بم
میری تنہائی کے نرم و نازک چمن میں لرزنے لگا
تشنہ خواہش سے بھیگی ہوئی کونپلیں
سر اٹھانے لگیں،
اپنی آنکھوں میں سرگوشیوں کی ہوا
دور تک خواب کی فصل کو
لہر در لہر لہلہانے لگی
جسم کی کھیتیاں سرسرانے لگیں
سرمئی شام کی گود میں کتنے شبنم کے موتی چمکنے لگے
پہلی خواہش سے ابھری ہوئی خواہشیں
کتنی صدیوں پہ پھیلی ہوئی ہیں مگر
ایک لمحہ ہمیں پھر کبھی نہ ملا،
ہم ادھوری سی خواہش کی پہچان ہیں
______________
Rashid Fazli Poetry
Rashid Fazli Poetry

Saturday, June 2, 2012

نظم : عدنان کے لئے اک دعائیہ نظم

 مرے گھر کے چھوٹے سے بچے، ابھی جو
گھروندے بنانے میں مشغول تھے
آج سرکش ہوئے
اب بدن کاٹتے پھر رہے ہیں
اپنے بوڑھے سے ماں باپ کے
کتنے نادان ہیں
زندگی کی حرارت سے واقف نہیں
قرض ِ ناخن چکانے کے عادی نہیں
پاؤں دھرتی پہ گاڑے ہوئے
سر کو اونچا اٹھانے میں مشغول ہیں
بانس پہ نٹ کے کھیلوں کو دیکھا تو سمجھے
بانس ہی وہ بلندی ہے جس سے
چاند تاروں کو اب توڑ لینا بھی مشکل نہیں
بوڑھی ہڈی مگر،
پھر دعاؤں میں مصروف ہے
کاش بچے مرے
نٹ کے کھیلوں سے آگے بڑھیں
آدمی کی طرح آج زندہ رہیں
_____________
 
Rashid Fazli Poetry