Tuesday, January 10, 2012

تین شعر

یہ تو تیرا خواب نہیں ہے
اِن آنکھوں میں بند ہیں آنکھیں

جس پتھر کو ہم نے اٹھایا
اس پہ دیکھا کند ہیں آنکھیں

شہرت کا بازار سجا ہے
اپنی لیکن بند ہیں آنکھیں
_____________

Monday, January 9, 2012

غزل : میں شاید بد دعا ہوں اک شجر کی

غزل

میں شاید بد دعا ہوں اک شجر کی
کھڑی ہے دھوپ سر پر دوپہر کی

مجھے نابینا آنکھیں گھورتی ہیں
یہ قیمت دے رہا ہوں میں نظر کی

شرافت ہے ابھی دنیا میں باقی
ذرا تصدیق کر لوں اس خبر کی

دُکھایا دل مرا تم نے بھی اتنا
محبت میں نے تم سے جس قدر کی

مری رگ رگ میں آکر چل رہی ہے
تھی دنیا کو ضرورت رہ گزر کی

ابھر آیا غبار آلود منظر
کبھی تصویر جو کھینچی سفر کی
_____________

Saturday, January 7, 2012

تین شعر

نظر کو دھوکا سراب کیا دے
فریب خوردہ جواب کیا دے

ہو کرب جس کا جواز جینا
وہ زندگی کا حساب کیا دے

نہ دل کی قیمت، نہ آدمی کی
کسی کو کوئی جناب کیا دے
__________

Friday, January 6, 2012

غزل : ان سرابوں میں ہم اجنبی سے رہے

غزل

ان سرابوں میں ہم اجنبی سے رہے
ملتے جلتے مگر ہر کسی سے رہے

زندگی کی جہاں کوئی صورت نہ تھی
ایسے لمحوں میں ہم اک صدی سے رہے

شہر ِ دل اپنا سارا ہے خالی پڑا
جو بھی چاہے یہاں اب خوشی سے رہے

ہم تو چہروں کی اس بھیڑ میں کھو گئے
آئینہ آئینہ حیرتی سے رہے

تیری چاہت کا ہم کو صلہ یہ ملا!
اپنے ہونٹوں پہ ہم تشنگی سے رہے
 ____________

Wednesday, January 4, 2012

غزل : دریا دریا آنکھ تری اور ایک ترستا صحرا میں

غزل

دریا دریا آنکھ تری اور ایک ترستا صحرا میں
تیرے درد کو لیکر جب بھی ہوا چلی تو بِکھرا میں

یوں تو اپنا ظاہر باطن جو کچھ بھی ہے ظاہر ہے
جانے کن کن آنکھوں کا ہوں آج بھی پہلا دھوکا میں

اپنی ذات کے اندر باہر سیلِ طرب ہے دنیا کا!
بہتے ہوئے اک دریا میں ہوں پھر بھی پیاسا پیاسا میں

گھر کے یاس زدہ چہروں پر گرد جمی تھی صدیوں کی
دشت سفر کی دھوپ کو لیکر جب بھی گھر کو لوٹا میں

اپنے دکھوں کے سیل رواں میں پتھر بن کر بیٹھا ہوں
رات اندھیری آنکھ میں رکھ کر جاگ رہا ہوں تنہا میں

آتے جاتے مسافر دل کے دھوپ جلن اور تنہائی
اپنے شہر کے سونے پن کا چلتا ہوا اک رستہ میں

دل کے اندر گھر ہے میرا، بھس بدل کر رہتا ہوں
چاہت میری وہ کیا جانے، جس کی نظر کا دھوکا میں
_______________


Tuesday, January 3, 2012

غزل : سیاہ رات کبھی آنکھ میں اُترتی ہے

غزل

سیاہ رات کبھی آنکھ میں اُترتی ہے
تو سونے والے سے پوچھو کہ کیا گزرتی ہے

اندھیرے گھر میں اندھیرا ہی آج رہنے دو
سنہری دھوپ مری، روشنی سے ڈرتی ہے

بِکو کہ تم بھی خریدے ہی جاؤ گے اک دن
ہر ایک شخص کا سودا یہ دنیا کرتی ہے

میں بے کسی کو گلے سے لگاۓ پھرتا ہوں
سنا ہے موت بھی اب بے کسی سے ڈرتی ہے

تھکن سے چور مسافر ٹھہر تو جاتا ہے
مگر یہ نیند کہاں آنکھ میں ٹھہرتی ہے

دھنک کا کھل ہے یہ روشنی کے سنگم پر
اداس آنکھوں کی کالی گھٹا بکھرتی ہے
________________

Monday, January 2, 2012

غزل : مجھ کو ہنستا دیکھ کر، دل کی اُداسی رو گئی

غزل

مجھ کو ہنستا دیکھ کر، دل کی اُداسی رو گئی
ایک امیدِ فریبِ خوشدلی بھی کھو گئی!

رات نے میرے بدن میں جھانک کر دیکھا تھا گھر
زندگی بھر کے لئے آکر وہیں پر سو گئی

اپنے جسم و جاں کی کھیتی دھوپ کی زد میں رہی
سبز رنگوں میں اگی تھی آج پیلی ہو گئی....!

ظلمتِ دل آج بھی اندھے کنویں کی ہے مکیں
روشنی چہرے کی ساری گرد کیونکر دھو گئی

دیکھ کر احساس کی زرخیز سی پھیلی زمیں
بیج زخموں کے، ہماری زیست لاکر بو گئی

بوجھ تھا مجھ پر گناہِ آرزوۓ یار کا......!
اپنا سامانِ سفر یہ زندگی خود ڈھو گئی

میں سمندر کی طرح پھیلا ہوا تھا لہر لہر!
میری وسعت اس جبیں کی سلوٹوں میں کھو گئی
____________