Monday, November 28, 2011

غزل : درد پھیلے تو سمندر دیکھو | حوصلہ ہو تو یہ منظر دیکھو

غزل

درد پھیلے تو سمندر دیکھو
حوصلہ ہو تو یہ منظر دیکھو

آہٹیں پھرتی ہیں کشکول لئے
کوئی سائل نہ ہو در پر دیکھو

اب تو چہروں کی حدوں سے نکلو
کوئی ہنستا ہو تو اندر دیکھو

پھول سے ہاتھ نے پھینکا تھا جسے
عمر رفتہ کا وہ کنکر دیکھو

توڑ دیتی ہے یہ دنیا کیسے
اپنے خوابوں سے نکل کر دیکھو

اپنی یادوں کا عجب سنگم ہے
رنگ بکھرے تو پکڑ کر دیکھو

اتنے چہروں میں کسی کو ڈھونڈو
کوئی لگ جاۓ جو بہتر دیکھو

اپنے ویرانے میں لوٹو تو کبھی
گھر کی دیوار گرا کر دیکھو

Thursday, November 24, 2011

غزل : ساتھ دیوار کے ہے در تنہا | اپنا یہ گھر ہے کس قدر تنہا

غزل

ساتھ  دیوار کے ہے در تنہا
اپنا یہ گھر ہے کس قدر تنہا

جس پر سارا زمانہ چلتا ہے
آج بھی ہے وہ رہگزر تنہا

اپنے ساۓ کے ساتھ رہ رہ کر
ہو چکا ہے ہر اک شجر تنہا

لوگ سنتے ہیں شورِیکتائی
کوئی رہتا نہیں مگر تنہا

ان پہاڑوں کی سبزوادی میں
جلتا بجھتا ہوا سا گھر تنہا

ہے نزاکت کا کاروبار غزل
اس کا اپنا ہے اک ہنر تنہا

اس قیامت کی بھیڑ میں راشد
اپنی چھوٹی سی اک نظر تنہا


Tuesday, November 22, 2011

ایک شعر

ایک شعر

اب لاؤ کسی دھوپ کو لے جاکے لٹا دو
سائے کے لئے پتیاں باقی ہیں شجر میں
_________


Sunday, November 20, 2011

غزل : پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو

غزل

پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو

لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو

اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو

کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو

کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو

Tuesday, November 15, 2011

غزل : نہ کسی کے خواب و خیال میں، نہ کسی کے دستِ دعا میں ہوں

غزل

نہ کسی کے خواب و خیال میں، نہ کسی کے دستِ دعا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں متاعِ چاکِ قبا میں ہوں

مجھے دشت، دشت صدا نہ دو مجھے لہر لہر ہوا نہ دو
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں کسی کے عہدِ وفا میں ہوں

مجھے لوٹتے ہیں یہ لوگ کیوں، میں کسی کا زادِ سفر نہیں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی آرزوۓ بقا میں ہوں

مجھے شام شام نہ سوچنا، مجھے رات رات نہ جاگنا
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں

مجھے ڈال ڈال نہ دیکھنا، مجھے پات پات نہ ڈھونڈنا!
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں

مجھے آنکھ آنکھ نہ کھوجنا جہاں دردِ دل کا پتہ نہ ہو
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں

مجھے لوگ کہتے ہیں زندگی مجھے دیکھتا نہیں کوئی بھی
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر آئینوں کی ضیا میں ہوں

میں وہ خاموشی جو دلوں میں ہے، وہی بے کسی جو لبوں پہ ہے!
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں

جو شفق سے رنگ میں ہو کہیں، انہیں لب سے جاکے یہ پوچھنا
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں

کبھی پر لگا کے اڑا نہیں، میں ہوس کی کوئی صدا نہیں
مرا پاؤں بھی ہے زمین پر، مگر میں کہ جیسے ہوا میں ہوں

نعت

نعت

اے رسولِ خدا!
وصفِ انساں کی تو، ایسی معراج ہے
جس میں کونین کی نعمتیں بھی سمٹ کر
تیری پلکوں کے نیچے ہیں سایہ فگن
تو نبی آخری، ساری ارض و سماوات کا
تو شہادت خدا کے ان اوصاف کی
جس کو انساں کی تخیل چھوتے ہوئے
مدتوں اپنے پر کو جلاتی رہی
اے رسول خدا،
امّتی ہوں ترا
تونے پلکوں پہ اپنی اٹھایا ہے ارض و سماوات کو
ایک ذرہ ہوں میں
یاکہ اس سے بھی کم
خود پہ اپنے گناہوں کا اک بوجھ لادے ہوئے
کتنا حیران ہوں،
تو مجھے اپنی پلکوں کا سایہ نہ دے
اپنے پیروں میں لپٹی ہوئی خاک کا
ایک ذرہ بنا،
مجھ کو معلوم ہے تیرے پیروں کی مٹی بھی
انساں کے سارے گناہوں کو،
سر پر اٹھانے کے جذبے سے معمور ہے!!!

Saturday, November 12, 2011

حمد

حمد

میں تیرے اعلمِ ہست کا
ایک بے نام ذرہ سہی
یا کہ وہ بھی نہیں،
تو مری لکنتِ نطق کو
کچھ تو الفاظ دے
جسم اپنا نہیں!
قلب اپنا نہیں!!
یہ زباں بھی نہیں!!!
تُو تو آقا ہے سارے جہاں کا
تُو مجھے، اک ثناۓ مجسم کا کوئی بھی ذرہ بنا لے،
حمد میں تاکہ میں تیری شامل رہوں
حمد تیری کروں،
مجھ میں طاقت نہیں......
لفظ اپنا نہیں،
جان اپنی نہیں.....
یہ زباں بھی نہیں
کچھ بھی اپنا نہیں!!