Tuesday, December 2, 2014

غزل : اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے

غزل

اِسی اک بات کا مجھ پر نشہ ہے
مرے خوابوں میں کوئی جاگتا ہے

مرے بیتے دنوں کی یاد لے کر
چلے آؤ کہ دروازہ کھلا ہے

میں اب ہر اجنبی کو جانتا ہوں!
کہ شہرِ جاں میں ہر چہرہ نیا ہے

ہر اک ہجرت کدے کی ہے علامت
وہی اک شخص جو تنہا کھڑا ہے

زباں کا ذائقہ اپنا لہو ہے
سمندر اپنا پانی پی رہا ہے

میں وہ ہوں جو تمہیں دِکھتا نہیں ہوں
مرے اندر تو کوئی دوسرا ہے

بصارت اپنی آنکھوں سے ہٹا لو،
کہ جو دیکھوگے وہ دیکھا ہوا ہے

یہاں شیشے کے دل ڈھلنے لگے ہیں
حقیقت جس کی پتھر جانتا ہے

راشد فضلی
_________________________

Rashid Fazli Poetry
A Ghazal by Rashid Fazli

Thursday, November 13, 2014

غزل : کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

غزل

کبھی زندگی جو عذاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا
کوئی ٹوٹتا ہوا خواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یہ تمہارے ہونٹوں کی تشنگی، کبھی سیل ِ خوں میں سفر کرے
جو نظر کے آگے سراب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کبھی اپنے قرضۂ جان کا، کبھی زخم ہاۓ گداز کا
تمہیں دینا کوئی حساب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

یوں خلا میں گھورتے گھورتے کوئی لمحہ ایسا ٹھہر پڑے
کہ سوال ہو نہ جواب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

وہی تازگی ہے درون ِ دل، مرا زخم ناب کھلا ہوا
تمہیں دیکھنا جو گلاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی دل گرفتہ خیال سے جو تمہاری آنکھیں امنڈ پڑیں
کوئی موج ِ خوں تہۂِ آب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

بڑی بے ثبات ہے زندگی کسی موج ِ آب کے زور پر
کہیں تیرتا جو حُباب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

کسی آس پر کٹے زندگی، کبھی آسماں پہ نظر اٹھے
تو دعا سے تم کو حجاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

مرے بخت کی یہ نوشت بھی ہے سیاہیوں سے لکھی ہوئی
جو تمہارے آگے کتاب ہو، مجھے دیکھنا، مجھے سوچنا

راشد فضلی
_______________________

Urdu Poetry by Rashid Fazli
A Ghazal by Rashid Fazli