Dr. Rashid Fazli | ڈاکٹر راشد فضلی
میں اپنے حرف اول سے ہی تجھ کو : بیاض دل پہ لکھتا آ رہا ہوں :: خواب آنکھیں
Khwaab Aankhen
Mohammad Yahya Farooqui
Friday, February 22, 2019
Sher : Ab Lao Kisi Dhoop Ko Le Ja Ke Leta Do
Wednesday, January 30, 2019
Ghazal : Phoolon Phoolon Mahkey Lekin Shabnam Shabnam Roye Toh
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو
لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو
اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو
کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو
کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو
راشد فضلی
ग़ज़ल
फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोये तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोये तो
लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोये तो
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोये तो
ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोये तो
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोये तो
किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोये तो
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोये तो
कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोये तो
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोये तो
राशिद फ़ज़ली
![]() |
Ghazal by Rashid Fazli |
Wednesday, January 2, 2019
Ghazal : Na Kisi Ke Khaab-o Khyaal Mey Na Kisi Ki Dast-e Dua Mey Hun
![]() |
Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
نہ کسی کے خواب و خیال میں، نہ کسی کے دستِ دعا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں متاعِ چاکِ قبا میں ہوں
مجھے مل چکی ہیں بشارتیں، میں متاعِ چاکِ قبا میں ہوں
مجھے دشت، دشت صدا نہ دو مجھے لہر لہر ہوا نہ دو
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں کسی کے عہدِ وفا میں ہوں
مرا شہر شہر پتہ نہ لو، میں کسی کے عہدِ وفا میں ہوں
مجھے لوٹتے ہیں یہ لوگ کیوں، میں کسی کا زادِ سفر نہیں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی آرزوۓ بقا میں ہوں
میں خیال ہوں کسی شعر کا کسی آرزوۓ بقا میں ہوں
مجھے شام شام نہ سوچنا، مجھے رات رات نہ جاگنا
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں
وہ جو ایک چہرہٴ صبح ہے، میں اسی کی قیدِ ضیا میں ہوں
مجھے ڈال ڈال نہ دیکھنا، مجھے پات پات نہ ڈھونڈنا!
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں
میں کلی کے کھلنے کا راز ہوں یوں نگاہِ باد صبا میں ہوں
مجھے آنکھ آنکھ نہ کھوجنا جہاں دردِ دل کا پتہ نہ ہو
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں
وہ جو گرد سے ہیں اٹے ہوۓ انہیں آئینوں کی جلا میں ہوں
مجھے لوگ کہتے ہیں زندگی مجھے دیکھتا نہیں کوئی بھی
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر آئینوں کی ضیا میں ہوں
میں نظر نظر کا فریب ہوں مگر آئینوں کی ضیا میں ہوں
میں وہ خاموشی جو دلوں میں ہے، وہی بے کسی جو لبوں پہ ہے
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں
نہ میں لفظ ہوں، نہ میں شعر ہیں، نہ کسی کی طرزِ ادا میں ہوں
جو شفق سے رنگ میں ہو کہیں، انہیں لب سے جاکے یہ پوچھنا
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں
میں کسی کی گردِ جبیں میں ہوں یا کسی کے رنگِ حنا میں ہوں
کبھی پر لگا کے اڑا نہیں، میں ہوس کی کوئی صدا نہیں
مرا پاؤں بھی ہے زمین پر، مگر میں کہ جیسے ہوا میں ہوں
مرا پاؤں بھی ہے زمین پر، مگر میں کہ جیسے ہوا میں ہوں
راشد فضلی
Wednesday, December 5, 2018
Naat
![]() |
A Naat by Rashid Fazli |
نعت
اَے رسولِ خُدا!
وصفِ انساں کی تو، ایسی معراج ہے
جس میں کونین کی نعمتیں بھی سمٹ کر
تیری پلکوں کے نیچے ہیں سایہ فگن
تو نبی آخری، ساری ارض و سماوات کا
تو شہادت خدا کے ان اوصاف کی
جس کو انساں کی تخیل چھوتے ہوئے
مدتوں اپنے پر کو جلاتی رہی
اَے رسول خدا،
اُمّتی ہوں ترا
تونے پلکوں پہ اپنی اٹھایا ہے ارض و سماوات کو
ایک ذرہ ہوں میں
یاکہ اُس سے بھی کم
خود پہ اپنے گناہوں کا اک بوجھ لادے ہوئے
کتنا حیران ہوں،
تو مجھے اپنی پلکوں کا سایہ نہ دے
اپنے پیروں میں لپٹی ہوئی خاک کا
ایک ذرّہ بنا،
مجھ کو معلوم ہے تیرے پیروں کی مٹی بھی
انساں کے سارے گناہوں کو،
سر پر اُٹھانے کے جذبے سے معمور ہے!!!
وصفِ انساں کی تو، ایسی معراج ہے
جس میں کونین کی نعمتیں بھی سمٹ کر
تیری پلکوں کے نیچے ہیں سایہ فگن
تو نبی آخری، ساری ارض و سماوات کا
تو شہادت خدا کے ان اوصاف کی
جس کو انساں کی تخیل چھوتے ہوئے
مدتوں اپنے پر کو جلاتی رہی
اَے رسول خدا،
اُمّتی ہوں ترا
تونے پلکوں پہ اپنی اٹھایا ہے ارض و سماوات کو
ایک ذرہ ہوں میں
یاکہ اُس سے بھی کم
خود پہ اپنے گناہوں کا اک بوجھ لادے ہوئے
کتنا حیران ہوں،
تو مجھے اپنی پلکوں کا سایہ نہ دے
اپنے پیروں میں لپٹی ہوئی خاک کا
ایک ذرّہ بنا،
مجھ کو معلوم ہے تیرے پیروں کی مٹی بھی
انساں کے سارے گناہوں کو،
سر پر اُٹھانے کے جذبے سے معمور ہے!!!
راشد فضلی
Labels:
Mohammad Yahya Farooqui,
Naat,
Poetry by Rashid Fazli,
Rashid Fazli,
نعت
Wednesday, October 3, 2018
Hamd
حمد
میں تیرےعالمِ ہست کا
ایک بے نام ذرہ سہی
یا کہ وہ بھی نہیں،
تو مری لکنتِ نطق کو
کچھ تو اَلفاظ دے
جسم اپنا نہیں!
قلب اپنا نہیں!!
یہ زباں بھی نہیں!!!
تُو تو آقا ہے سارے جہاں کا
تُو مجھے، اِک ثناۓ مجسم کا کوئی بھی ذرہ بنا لے،
حمد میں تاکہ میں تیری شامل رہوں
حمد تیری کروں،
مجھ میں طاقت نہیں......
لفظ اپنا نہیں،
جان اپنی نہیں......
یہ زباں بھی نہیں
کچھ بھی اپنا نہیں!!
ایک بے نام ذرہ سہی
یا کہ وہ بھی نہیں،
تو مری لکنتِ نطق کو
کچھ تو اَلفاظ دے
جسم اپنا نہیں!
قلب اپنا نہیں!!
یہ زباں بھی نہیں!!!
تُو تو آقا ہے سارے جہاں کا
تُو مجھے، اِک ثناۓ مجسم کا کوئی بھی ذرہ بنا لے،
حمد میں تاکہ میں تیری شامل رہوں
حمد تیری کروں،
مجھ میں طاقت نہیں......
لفظ اپنا نہیں،
جان اپنی نہیں......
یہ زباں بھی نہیں
کچھ بھی اپنا نہیں!!
راشد فضلی
Thursday, August 25, 2016
Ghazal : Apne Aap Mey Pagal Rahna Jaise Ham Aur Tum
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
اپنے آپ میں پاگل رہنا، جیسے ہم اور تم
دیواروں کا اندھا رشتہ جیسے ہم اور تم
اپنے آپ کناروں کا احساس مٹاۓ کون
بیچ میں ہے اک بہتا دریا جیسے ہم اور تم
دوری، قربت دونوں کا دکھ لیکر جیتے ہیں
پیڑ تلے ہے پیڑ کا سایہ جیسے ہم اور تم
ہنس کر، رو کر ساتھ سفر میں چلتے رہنا ہے
آپس میں یوں ڈرتے رہنا جیسے ہم اور تم
اتنے دنوں کا ساتھ ہمارا، پھر کیوں لگتا ہے
سپنوں میں ان دیکھا سپنا جیسے ہم اور تم
درد کا رشتہ ایک ہے لیکن، کون سمجھتا ہے
دونوں میں ہے ایک اکیلا جیسے ہم اور تم
گھر بھی اپنا، تم بھی اپنے پھر بھی لگتا ہے!
زیست ہے اپنی جنس کا سودا جیسے ہم اور تم
راشد فضلی
اپنے آپ میں پاگل رہنا، جیسے ہم اور تم
دیواروں کا اندھا رشتہ جیسے ہم اور تم
اپنے آپ کناروں کا احساس مٹاۓ کون
بیچ میں ہے اک بہتا دریا جیسے ہم اور تم
دوری، قربت دونوں کا دکھ لیکر جیتے ہیں
پیڑ تلے ہے پیڑ کا سایہ جیسے ہم اور تم
ہنس کر، رو کر ساتھ سفر میں چلتے رہنا ہے
آپس میں یوں ڈرتے رہنا جیسے ہم اور تم
اتنے دنوں کا ساتھ ہمارا، پھر کیوں لگتا ہے
سپنوں میں ان دیکھا سپنا جیسے ہم اور تم
درد کا رشتہ ایک ہے لیکن، کون سمجھتا ہے
دونوں میں ہے ایک اکیلا جیسے ہم اور تم
گھر بھی اپنا، تم بھی اپنے پھر بھی لگتا ہے!
زیست ہے اپنی جنس کا سودا جیسے ہم اور تم
راشد فضلی
____________________find Rashid Fazli on facebook____________________
ग़ज़ल
अपने आप में पागल रहना, जैसे मैं और तुम
दीवारों का अंधा रिश्ता जैसे मैं और तुम
अपने आप किनारों का एहसास मिटाये कौन
बीच में है एक बहता दरया जैसे मैं और तुम
हँस कर, रो कर साथ सफ़र में चलते रहना है
आपस में यूँ डरते रहना जैसे मैं और तुम
इतने दिनों का साथ हमारा, फिर क्यों लगता है
सपनों में अनदेखा सपना जैसे मैं और तुम
दर्द का रिश्ता एक है लेकिन, कौन समझता है
दोनों में है एक अकेला जैसे मैं और तुम
राशिद फ़ज़ली
अपने आप में पागल रहना, जैसे मैं और तुम
दीवारों का अंधा रिश्ता जैसे मैं और तुम
अपने आप किनारों का एहसास मिटाये कौन
बीच में है एक बहता दरया जैसे मैं और तुम
हँस कर, रो कर साथ सफ़र में चलते रहना है
आपस में यूँ डरते रहना जैसे मैं और तुम
इतने दिनों का साथ हमारा, फिर क्यों लगता है
सपनों में अनदेखा सपना जैसे मैं और तुम
दर्द का रिश्ता एक है लेकिन, कौन समझता है
दोनों में है एक अकेला जैसे मैं और तुम
राशिद फ़ज़ली
![]() |
A Ghazal by Rashid Fazli |
Wednesday, July 6, 2016
Ghazal : Phoolon Phoolon Mahke Lekin Shabnam Shabnam Roye To
![]() |
An Urdu Ghazal by Rashid Fazli |
غزل
پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو
لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو
اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو
کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو
کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو
راشد فضلی
پھولوں پھولوں مہکے لیکن شبنم شبنم روۓ تو
کوئی کسی کی خاطر پہلے اپنے آپ کوکھوۓ تو
لوگ بہت تھے جب آئ تھی تنہائی کی کالی رات
اپنے آپ سے لپٹے لیکن گہری نیند بھی سوۓ تو
اوسر بنجر کھیتوں میں سب رنگ کی کھیتی اگتی ہے
ایک سنہرا خواب آنکھوں میں لاکر کوئی بوۓ تو
کن لوگوں کا دل پگھلا اور کن لوگوں پر آنچ آئ
دھوپ کے آنگن کے بچے سب خون کے آنسوروۓ تو
کیسے کیسے کھیل تماشے دنیا میں اب ہوتے ہیں
دیکھنے والا خون میں لیکن اپنی آنکھ ڈبوۓ تو
راشد فضلی
____________________find Rashid Fazli on facebook____________________
ग़ज़ल
फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोए तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोए तो
लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोए तो
ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोए तो
किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोए तो
कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोए तो
राशिद फ़ज़ली
फूलों फूलों महके लेकिन शबनम शबनम रोए तो
कोई किसी की ख़ातिर पहले अपने आप को खोए तो
लोग बहुत थे जब आई थी तनहाई की काली रात
अपने आप से लिपटे लेकिन गहरी नींद भी सोए तो
ऊसर बंजर खेतों में सब रंग की खेती उगती है
एक सुनहरा ख़ाब आँखों में लाकर कोई बोए तो
किन लोगों का दिल पिघला और किन लोगों पर आँच आई
धूप के आँगन के बच्चे सब ख़ून के आँसू रोए तो
कैसे कैसे खेल तमाशे दुनिया में अब होते हैं
देखने वाला ख़ून में लेकिन अपनी आँख डुबोए तो
राशिद फ़ज़ली
![]() |
An Urdu Ghazal by Rashid Fazli |
Subscribe to:
Posts (Atom)